سوات سانحہ: انتظامیہ کی سنگین غفلت؟ محکمہ ایریگیشن نے تو پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات

پشاور: دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 12 افراد کے ڈوبنے کے المناک واقعے پر سرکاری غفلت کی تشویشناک رپورٹس سامنے آنے لگی ہیں، جس نے پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے۔

محکمانہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا کے محکمہ ایریگیشن نے دریائے سوات میں سیلابی ریلے سے قیمتی جانوں کے ضیاع سے چند گھنٹے قبل متعلقہ اداروں اور سوات، چارسدہ اور نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنرز کو متعدد وارننگز جاری کی تھیں۔

یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا 17 افراد پر مشتمل ایک خاندان دریا کنارے پکنک مناتے ہوئے پانی کے اچانک تیز بہاؤ میں بہہ گیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دلخراش ویڈیوز میں خاندان کو زمین کے ایک سکڑتے ہوئے ٹکڑے پر پھنسا ہوا دیکھا جاسکتا ہے، جو تقریباً ایک گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن کوئی فوری امداد نہ پہنچ سکی۔

اب تک 12 لاشیں نکالی جاچکی ہیں، جن میں اتوار کو چارسدہ سے ملنے والی ایک بچے کی لاش بھی شامل ہے۔ ایک شخص اب بھی لاپتہ ہے جس کی تلاش جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 27 جون کو چند ہی گھنٹوں میں خوازہ خیلہ کے مقام پر دریا کا بہاؤ 6,738 کیوسک سے بڑھ کر 77,782 کیوسک تک پہنچ گیا تھا۔ پہلی وارننگ صبح 8 بج کر 41 منٹ پر جاری کی گئی، جس میں سوات، چارسدہ اور نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنرز سمیت تمام متعلقہ حکام کو ممکنہ سیلاب کے خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا۔

محکمے نے واٹس ایپ کے ذریعے مسلسل تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھا اور صبح 10:30 بجے تک شدید سیلاب کی وارننگ جاری کردی تھی۔ ڈپٹی کمشنرز، پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، اے ڈی سی ریلیف اور دیگر متعلقہ اداروں کو بار بار الرٹ بھیجے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمے نے بروقت اور جامع وارننگز جاری کی تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ خوازہ خیلہ میں سیاح اس وقت دریا میں داخل ہوئے جب پانی کی سطح معمول پر تھی لیکن شدید بارش کی وجہ سے بہاؤ میں تیزی سے اضافے کے باعث وہ پھنس گئے۔

محکمہ ایریگیشن نے اپنی سفارشات میں ریسکیو 1122 کو سیلاب سے بچاؤ کے آلات فراہم کرنے، سیاحتی علاقوں تک رسائی محدود کرنے اور ہوٹل مالکان کو خطرناک علاقوں میں سیاحوں کو جانے کی اجازت دینے پر جوابدہ ٹھہرانے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ سیاحوں کو محفوظ علاقوں تک محدود رکھنے کے لیے پالیسی بنانے اور دریا کی سطح کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے مدین اور کالام میں اضافی ٹیلی میٹری گیجز نصب کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

سانحے کے بعد ریسکیو 1122 کی کارکردگی پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ جائے وقوعہ سے صرف 3 سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود، ریسکیو ٹیمیں مبینہ طور پر 19 منٹ تاخیر سے پہنچیں اور وہ بھی بغیر کشتیوں، رسیوں اور تربیت یافتہ غوطہ خوروں کے۔ اس کے علاوہ دریا کنارے تجاوزات کا معاملہ بھی زیر بحث ہے اور ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جنہوں نے حفاظتی ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیرات کی اجازت دی۔

اپنا تبصرہ لکھیں