خیبرپختونخوا میں تبدیلی کی ہوائیں؟ اپوزیشن حکومت گرانے سے صرف 21 قدم دور، پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی

پشاور: خیبرپختونخوا میں سیاسی منظر نامہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جہاں اپوزیشن اتحاد صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے صرف 21 نشستیں دُور رہ گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں کی بحالی سے اپوزیشن کی عددی طاقت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زیرِ قیادت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عددی فرق نمایاں طور پر کم ہوگیا ہے۔

اس وقت پی ٹی آئی حکومت 92 نشستوں کے ساتھ ایوان میں موجود ہے، جبکہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 53 ہوگئی ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی کل 145 نشستیں ہیں، تاہم فی الحال 115 منتخب ارکان موجود ہیں۔ باقی 30 نشستوں میں سے 26 خواتین اور 4 اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سپریم کورٹ کے 27 جون کے فیصلے کی روشنی میں بدھ کو مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے بعد اسمبلی میں اپوزیشن کی پوزیشن مستحکم ہوئی۔

مخصوص نشستوں کی بحالی کے بعد جمعیت علمائے اسلام-فضل (جے یو آئی-ف) کے منتخب ارکان کی تعداد 7 سے بڑھ کر 19 ہوگئی ہے، جس میں 10 خواتین اور 2 اقلیتی نشستیں شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) 6 منتخب ارکان سے 15 پر پہنچ گئی ہے، جسے 9 مخصوص نشستیں ملی ہیں۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو 6 خواتین اور 1 اقلیتی نشست ملنے کے بعد اس کے ارکان کی تعداد 4 سے بڑھ کر 11 ہوگئی ہے۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کی نشستیں دو سے بڑھ کر تین اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو ایک مخصوص نشست ملنے کے بعد اس کی بھی 3 نشستیں ہوگئی ہیں۔

اس کے علاوہ، دو آزاد اراکین صوبائی اسمبلی (ایم پی ایز) ہشام انعام اللہ اور علی حیدر بھی اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ہیں، جس سے ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے۔

صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی جماعت یا اتحاد کو کم از کم 73 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ اپوزیشن کے پاس 53 ارکان ہیں، جس کے بعد اسے یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے مزید 20 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ابھی تک کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں کیا گیا، لیکن اکثریت کے لیے تقریباً 18 سے 21 مزید ارکان کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ بجٹ اجلاس میں یہ واضح کردیا گیا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کا 12واں اور آخری بجٹ ہے، ”جب تک کہ کے پی حکومت گورننس اور امن و امان پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتی۔“

اپنا تبصرہ لکھیں