وینزویلا کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک کو حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے عوامی تنقید کے بعد ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے دیا ہے۔
منگل کو کیا جانے والا یہ اعلان وولکر ترک کے گزشتہ ہفتے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے دیے گئے بیانات کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے وینزویلا میں ریاستی افواج کی جانب سے من مانی حراستوں اور جبری گمشدگیوں کی مذمت کی تھی۔
اس اعلان سے قبل اسمبلی کے صدر جارج روڈریگیز نے وولکر ترک پر دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں، جیسے کہ امریکا میں مقیم وینزویلا کے تارکین وطن کو ایل سلواڈور کی حراستی سہولت میں بھیجنے جیسے معاملات پر ’آنکھیں بند‘ کرنے کا الزام عائد کیا۔ تاہم، وولکر ترک نے مئی میں ان ملک بدریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا۔
وولکر ترک کے وینزویلا میں مبینہ زیادتیوں سے متعلق ریمارکس ایک ایسے وقت میں آئے ہیں جب متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے گزشتہ جولائی کے متنازع انتخابات کے بعد وینزویلا کے حکام کی جانب سے سیاسی حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن کی مذمت کی ہے۔
’پرسونا نان گراٹا‘ یعنی ناپسندیدہ شخصیت قرار دیے جانے کا فوری طور پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن حکومت ان کے دفتر کو ملک سے نکالنے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ 2024 کے صدارتی انتخابات میں صدر نکولس مدورو کی کامیابی کے اعلان کے بعد سے وینزویلا میں کشیدگی عروج پر ہے، جسے اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے دھاندلی کے ذریعے چرایا گیا انتخاب قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ مدورو حکومت نے انتخابات کے بعد اختلاف رائے پر کریک ڈاؤن کی نگرانی کی، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور اپوزیشن کے قانون سازوں کو گرفتار کیا گیا، جن پر حکومت مخالف غیر ملکی طاقتوں سے تعاون کا الزام ہے۔
ایک طرف جہاں مدورو حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وہیں دوسری طرف وینزویلا نے مارچ میں امریکا سے ملک بدر کیے گئے لوگوں کو قبول کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے امیگریشن نافذ کرنے والے سوالات پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادگی بھی ظاہر کی ہے۔