خان یونس، غزہ – جنوبی غزہ کے ناصر ہسپتال کے صحن میں جب اپنے بیٹے احمد کی گولیوں سے چھلنی لاش دیکھی تو اسماہان شعت غم سے نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑیں۔ ان کی چیخیں فضا میں گونج رہی تھیں اور آواز صدمے اور دکھ سے بھری ہوئی تھی۔
روتے ہوئے وہ اپنے 23 سالہ بیٹے کے چہرے، ہاتھوں اور پیروں کو چوم رہی تھیں۔ ان کے دیگر چھ بچوں اور رشتہ داروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے سب کو پرے دھکیل دیا۔
وہ چیخیں، ’’مجھے اس کے پاس چھوڑ دو۔ مجھے اس کے پاس چھوڑ دو۔ احمد پھر بولے گا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا، ‘ماں، میں مرنے نہیں جا رہا۔ میں رفح کے امدادی مرکز سے تمہارے لیے کچھ لاؤں گا۔’‘‘
احمد جمعرات کو طلوع فجر سے قبل بے گھر خاندان کی المواصی میں قائم پناہ گاہ سے خوراک لینے کے لیے نکلا تھا، لیکن وہ کبھی واپس نہیں آیا۔
اس کا کزن مازن شعت اس کے ساتھ تھا۔ مازن نے بتایا کہ رفح میں امریکا کے حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے امدادی مرکز کے قریب جب اسرائیلی فوج نے ہجوم پر فائرنگ کی تو احمد کے پیٹ میں گولی لگی۔ اس واقعے میں دیگر افراد بھی جاں بحق اور زخمی ہوئے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، صرف ایک ماہ میں GHF امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی فائرنگ سے 600 فلسطینی جاں بحق اور 4,200 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، اور ان مراکز پر ہلاکتوں کی تعداد تقریباً روزانہ بڑھ رہی ہے۔ جن مراکز کو زندگی کی امید سمجھا جا رہا تھا، وہ اب موت کے پھندے بن چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے حکام نے GHF ماڈل کو عسکری، خطرناک اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز کی ایک رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انہیں غیر مسلح ہجوم پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔
اسماہان کا غم غصے میں بدل گیا: ’’کیا یہ مناسب ہے کہ میرا بیٹا اس لیے مر جائے کیونکہ وہ ہمارے لیے کھانا لانے گیا تھا؟ کہاں ہے وہ دنیا جو خود کو آزاد کہتی ہے؟ یہ اذیت کب تک جاری رہے گی؟‘‘
ناصر ہسپتال کے مردہ خانے میں، جہاں احمد کی لاش رکھی تھی، 25 سالہ شیرین نے اپنے 29 سالہ شوہر خلیل الخطیب کی لاش پر خود کو گرا دیا۔ وہ روتے ہوئے بمشکل کھڑی ہو پا رہی تھیں۔
وہ پکاریں، ’’خلیل، اٹھو۔ تمہارا بیٹا عبیدہ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ میں نے اسے صبح کہا تھا، ‘ابا جلد واپس آئیں گے۔’ ہمیں کھانا نہیں چاہیے، ہمیں تم چاہیے۔‘‘
خلیل بھی المواصی سے امداد کی تلاش میں نکلا تھا۔ اس کے سسر یوسف الرمیلاط نے بتایا کہ خلیل اسرائیلی ٹینکوں سے بچنے کے لیے محتاط تھا اور اسے کبھی توقع نہیں تھی کہ اسے نشانہ بنایا جائے گا۔
یوسف نے تلخی سے کہا، ’’وہ ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک آدمی کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ کچھ نہیں کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت نہ کر سکے۔ یہ جگہیں اب موت کے جال ہیں۔ یہ امداد نہیں، یہ نسل کشی ہے۔‘‘
بھوک اور مایوسی کے عالم میں لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر ان مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ 31 سالہ مصطفیٰ نبیل ابو عید، جو رفح سے المواصی بے گھر ہوئے، اپنے دوست عبداللہ ابو غالی کے ہمراہ امدادی مرکز سے واپس آرہے تھے جب انہوں نے اس سفر کو ’’موت کا سفر‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ’’ہم تقریباً 2 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں صرف علاقے کے کنارے تک پہنچنے کے لیے۔ پھر ہم گھنٹوں انتظار کرتے ہیں جب تک ٹینک پیچھے نہ ہٹ جائیں۔ جب وہ ہٹتے ہیں، تو ہم کھلے میدان میں بھاگتے ہیں۔ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کو کھانا ملے گا یا مارے جائیں گے۔‘‘
مصطفیٰ نے مزید کہا، ’’کوئی چارہ نہیں۔ اگر ہم خیموں میں رہتے ہیں تو بھوک، بیماری، بمباری سے مرتے ہیں۔ اگر ہم جاتے ہیں، تو شاید مر جائیں، لیکن شاید اپنے بچوں کے لیے کچھ واپس بھی لے آئیں۔‘‘
انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق امدادی مراکز پر شہریوں پر منظم حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ عالمی انسانی قوانین کے تحت، تنازع کے فریقین کو شہریوں کے تحفظ اور انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
لیکن شعت اور خطیب جیسے خاندانوں کے لیے قانونی درجہ بندیاں کوئی تسلی نہیں دیتیں۔ اسماہان صرف ایک امید سے چمٹی ہوئی ہے کہ اس کے بیٹے کا نام فراموش نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا، ’’وہ صرف اپنے خاندان کا پیٹ پالنا چاہتا تھا۔ اس نے کچھ غلط نہیں کیا۔ انہوں نے اسے ایسے مارا جیسے اس کی زندگی کی کوئی قیمت نہ ہو۔ دنیا کو بتاؤ: ہم صرف اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ہم انسان ہیں، اور ہم بھوک سے مر رہے ہیں۔‘‘