مقبوضہ کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع اور مہلک حملے کے چند ماہ بعد ہی مسلم اکثریتی علاقے میں ہندوؤں کی ایک ماہ طویل سالانہ امرناتھ یاترا کا آغاز ہو گیا ہے۔
جمعرات کو یاتریوں کی بڑی تعداد نے پہلگام قصبے کے قریب سے اپنی یاترا کا آغاز کیا، یہ وہی علاقہ ہے جہاں 22 اپریل کو ہونے والے ایک مہلک حملے نے بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ تنازع کو جنم دیا تھا، جس سے خطہ پانچویں ممکنہ جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔
گزشتہ سال تقریباً نصف ملین عقیدت مندوں نے امرناتھ یاترا میں شرکت کی تھی، جو پہلگام کے اوپر واقع جنگلاتی ہمالیائی پہاڑیوں میں ایک غار میں موجود مقدس برفانی ستون کی زیارت کے لیے کی جاتی ہے۔ رواں سال 22 اپریل کو اسی علاقے میں مسلح افراد نے حملہ کر کے 26 ہندو سیاحوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
نئی دہلی نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آوروں کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی، جس کی اسلام آباد نے سختی سے تردید کی تھی۔ اس واقعے کے بعد سفارتی محاذ پر کشیدگی بڑھی جو 7 مئی کو چار روزہ تنازع میں بدل گئی۔ یہ 1999 کے بعد دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان بدترین کشیدگی تھی، جس میں دونوں اطراف سے میزائل، ڈرون اور توپ خانے کے حملوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد 10 مئی کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔
الجزیرہ کے نمائندے عمر معراج نے پہلگام سے رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ”یاتریوں نے پہلے تو سکیورٹی پر تشویش کا اظہار کیا، لیکن اب وہ سخت حفاظتی انتظامات دیکھ کر خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”اپریل کے حملے نے اس سال کی یاترا کو زیادہ محتاط اور ٹیکنالوجی پر مبنی بنا دیا ہے، جس میں اب تک کی بلند ترین سطح کی سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ تقریباً 600 اضافی نیم فوجی یونٹس تعینات کیے گئے ہیں، جس سے یہ اب تک کی سب سے زیادہ محفوظ یاترا بن گئی ہے۔“
بھارت نے اس سال یاترا کے لیے سکیورٹی میں زبردست اضافہ کیا ہے اور 45,000 فوجیوں کو ہائی ٹیک نگرانی کے آلات کے ساتھ تعینات کیا ہے تاکہ ہندو دیوتا شیو سے منسوب بلند و بالا غار تک کے مشکل سفر کی نگرانی کی جا سکے۔
علاقے کے پولیس چیف وی کے بردی نے کہا، ”ہمارے پاس کثیر سطحی اور گہرے حفاظتی انتظامات ہیں تاکہ ہم عقیدت مندوں کے لیے یاترا کو محفوظ اور ہموار بنا سکیں۔“
تمام یاتریوں کے لیے اندراج لازمی ہے اور انہیں پیدل سفر شروع کرنے تک قافلوں کی صورت میں بکتر بند گاڑیوں میں سفر کرنا ہوتا ہے۔ راستے میں جنگلات میں درجنوں بنکرز بنائے گئے ہیں اور ہر 100 میٹر پر نیم فوجی دستوں کی چوکیاں قائم ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اعلیٰ منتظم منوج سنہا نے کہا کہ ”عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے“، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ اس سال یاتریوں کے اندراج میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
بھارت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کا کہنا ہے کہ یاترا ان کا ہدف نہیں، لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسے خطے میں ہندو تسلط قائم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ کارروائی کریں گے۔
22 اپریل کو حملہ کرنے والے مسلح افراد تاحال مفرور ہیں، جبکہ 22 جون کو بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے پہلگام کے علاقے سے دو افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن پر حملہ آوروں کو پناہ اور مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔ واضح رہے کہ 2017 میں بھی یاتریوں کی ایک بس پر حملے میں 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔