روس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد قبول کرتے ہوئے ملک کی طالبان حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کے تحت ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس اقدام کے بعد روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
جمعرات کو روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، “ہمارا ماننا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل ہمارے ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز دوطرفہ تعاون کی ترقی کو تحریک دے گا۔”
اس پیشرفت پر ردعمل دیتے ہوئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں روسی سفیر دمتری ژیرنوف کے ساتھ ایک ملاقات کی ویڈیو میں کہا، “یہ بہادرانہ فیصلہ دوسروں کے لیے ایک مثال ہوگا۔ اب جب کہ تسلیم کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے، روس سب سے آگے تھا۔”
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں اور طالبان کے بعض سینیئر رہنماؤں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے افغانستان کا بینکنگ سیکٹر بین الاقوامی مالیاتی نظام سے بڑی حد تک کٹ چکا ہے۔
طالبان نے اگست 2021 میں اس وقت اقتدار پر قبضہ کیا تھا جب امریکی افواج نے ملک کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ ماسکو، جس نے امریکی انخلا کو ایک “ناکامی” قرار دیا تھا، تب سے طالبان حکام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، اور انہیں ایک ممکنہ اقتصادی شراکت دار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔
رواں سال اپریل میں روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر سے “دہشت گرد” کا لیبل ہٹا دیا تھا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جولائی 2024 میں طالبان کو “دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی” قرار دیا تھا، خاص طور پر داعش خراسان (ISKP) کے خلاف، جو افغانستان اور روس دونوں میں مہلک حملوں کی ذمہ دار ہے۔
روس کا طالبان کے بارے میں رویہ گزشتہ دو دہائیوں میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے۔ 2003 میں روس نے شمالی قفقاز میں علیحدگی پسندوں کی حمایت پر طالبان کو اپنی “دہشت گرد” تنظیموں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا۔ تاہم، 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے روس اور خطے کے دیگر ممالک کو علاقائی اثر و رسوخ کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اب تک کسی بھی عالمی ادارے نے افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، اور اقوام متحدہ بھی انتظامیہ کو “طالبان کی ڈی فیکٹو اتھارٹیز” کے طور پر مخاطب کرتی ہے۔