واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ون بگ بیوٹیفل بل ایکٹ‘ کے نام سے ایک بڑا پالیسی بل پیش کیا ہے، جس پر ملک بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ بل امریکی معیشت کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا، جبکہ ناقدین اسے قومی قرضوں میں کھربوں ڈالر کے اضافے کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔
اس بل کے تحت امیر ترین امریکیوں کو بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔ اس ٹیکس کٹوتی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے میڈیکیڈ (صحت کی دیکھ بھال)، فوڈ اسٹیمپس (غذائی امداد)، اور طلباء کے قرضوں جیسے اہم شعبوں میں وفاقی اخراجات میں کمی کی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات معاشی ترقی کو تیز کرنے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا باعث بنیں گے۔
تاہم، کئی ریپبلکن اراکین سمیت ناقدین نے اس بل پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس کی قیمت لاکھوں عام امریکیوں کو ادا کرنی پڑے گی۔ غیر جانبدار کانگریشنل بجٹ آفس (سی بی او) کے تخمینے کے مطابق، یہ بل اگلے دس سالوں میں امریکی قومی قرضے میں تقریباً 3.3 ٹریلین (33 کھرب) ڈالر کا اضافہ کرے گا۔
الجزیرہ کے پروگرام ’کاؤنٹنگ دی کاسٹ‘ میں اس معاملے پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا، جس میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کینیڈا نے امریکی ٹیک کمپنیوں پر ڈیجیٹل ٹیکس کیوں ختم کیا اور نائجیریا میں ٹیکس اصلاحات کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔