دلائی لامہ کا جانشین کون؟ صدیوں پرانی روایت پر چین کا نیا دعویٰ، کیا دنیا کو دو دلائی لامہ دیکھنے کو ملیں گے؟

تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے اعلان کیا ہے کہ تبتی بدھ مت کے لیے ایک اور روحانی پیشوا ہوگا، جس کے بعد ان کے جانشین کا حساس معاملہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ رہنما کی عمر 90 سال کے قریب پہنچنے پر یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ اگلا دلائی لامہ کون ہوگا اور اس کا انتخاب کیسے کیا جائے گا۔

ہر دلائی لامہ کو ایک ‘زندہ بدھا’ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دلائی لامہ 1959 میں تبت میں چینی کمیونسٹوں کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد بھارت فرار ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا اگلا جنم وہاں ان کے پیروکاروں کے درمیان ہوسکتا ہے۔

تاہم، بیجنگ موجودہ دلائی لامہ کو علیحدگی پسند سمجھتا ہے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ جانشین کے انتخاب میں اسے ویٹو کا حق حاصل ہے۔ چین کا مؤقف ہے کہ یہ معاملہ صرف مذہبی نہیں بلکہ ایک اہم سیاسی مسئلہ بھی ہے اور اس پر اس کی حتمی منظوری ضروری ہے۔

دوسری جانب، امریکا دلائی لامہ کے اس حق کی حمایت کرتا ہے کہ وہ اپنے جانشین کا تعین خود کریں۔ امریکی مؤقف کے مطابق اس مذہبی عمل میں کسی بھی حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس بین الاقوامی مداخلت نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جانشینی کے انتخاب کا عمل مذہب اور علاقائی سیاست کے درمیان توازن کیسے قائم کرے گا؟ اور اگر اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو پاتا تو کیا دنیا کو دو دلائی لامہ دیکھنے کو مل سکتے ہیں؟ ایک جسے تبتی بدھ مت کے پیروکار تسلیم کریں اور دوسرا جسے چین کی حمایت حاصل ہو۔ یہ صورتحال خطے میں ایک بڑے مذہبی اور سیاسی تنازع کا باعث بن سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں