برطانیہ میں تربوز کی تصویر ‘یہودی مخالف’ قرار، فلسطینی نرس کو نوکری سے برخاستگی کی دھمکی، اصل کہانی کیا ہے؟

برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں سینیئر نرس کے طور پر کام کرنے والے ایک فلسطینی نژاد شہری احمد بیکر کو اس وقت سنگین تادیبی کارروائی کی دھمکی دی گئی جب انہوں نے ایک آن لائن میٹنگ کے دوران اپنے بیک گراؤنڈ میں پھلوں کی ایک تصویر لگائی، جسے ‘ممکنہ طور پر یہودی مخالف’ قرار دیا گیا۔

احمد بیکر نے الجزیرہ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں بتایا کہ وہ ایک مصروف ہفتے کے اختتام پر ہسپتال کے منصوبوں پر ہونے والی ایک عام ٹیمز میٹنگ میں شریک تھے۔ اس دوران ان کا ذہن غزہ میں موجود اپنے ایک دوست کی فکر میں مبتلا تھا جسے انہوں نے صبح ایک پیغام بھیجا تھا اور اس کے جواب کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بیک گراؤنڈ میں لگی تصویر ایک ساکن منظر تھا جس میں انجیر، زیتون، انگور، مالٹے، تربوز اور کچھ شیشے کی بوتلیں تھیں۔ یہ تصویر ان کی فلسطینی ثقافت اور جڑوں سے وابستگی کا ایک پرامن اظہار تھی، لیکن موجودہ ماحول میں اسے فلسطینی شناخت کی علامت سمجھتے ہوئے ایک خطرہ قرار دیا گیا۔

بیکر نے لکھا، ‘اچانک مجھ سے سوالات کیے جانے لگے، الزامات لگائے گئے، اور ممکنہ طور پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف ایک بیک گراؤنڈ کی وجہ سے، صرف فلسطینی ہونے کی وجہ سے۔’

انہوں نے اپنی ذہنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف وہ غزہ میں اپنے دوست کی زندگی کے لیے فکر مند تھے، جو اسرائیلی بمباری اور مواصلاتی بندش کے باعث موت اور زندگی کی کشمکش میں تھا، اور دوسری طرف انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں نسل پرستی کے الزام کا سامنا تھا۔

کچھ دیر بعد ان کے دوست کا جواب آیا کہ وہ زندہ ہیں، لیکن انہیں صبح سویرے اپنا گھر بار چھوڑ کر بچوں کے ساتھ گھنٹوں پیدل چل کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ بیکر نے اس تضاد پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب ان کا دوست اپنی جان بچا رہا تھا، انہیں پھلوں کی ایک پینٹنگ پر تادیبی کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔

احمد بیکر، جنہوں نے این ایچ ایس میں 25 سال خدمات انجام دی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ الگ تھلگ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں فلسطینیوں اور فلسطین کے حامیوں کو اپنی انسانیت پر سوالات کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے دو دیگر ساتھیوں نے اس معاملے پر قانونی کارروائی شروع کر دی ہے تاکہ این ایچ ایس کو بیرونی سیاسی لابنگ سے بچایا جا سکے اور یہ واضح کیا جا سکے کہ صحت کا قومی ادارہ صرف مریضوں اور عملے کا ہے، نہ کہ ان لوگوں کا جو اسے اپنے زہریلے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ‘نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانا نہ صرف ایک انسان کی حیثیت سے میری اخلاقی ذمہ داری ہے، بلکہ ایک جمہوری معاشرے میں برطانوی شہری کی حیثیت سے میرا حق بھی ہے۔ فلسطینی ہونا کوئی جرم نہیں، لیکن اکثر دنیا اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہے۔’

(اس مضمون میں بیان کردہ خیالات مصنف کے اپنے ہیں اور الجزیرہ کی ادارتی پالیسی کی عکاسی ضروری نہیں کرتے۔)

اپنا تبصرہ لکھیں