واشنگٹن: امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (ڈی ایچ ایس) نے تصدیق کی ہے کہ آٹھ افراد کو جنوبی سوڈان ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام ایک امریکی جج کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو ان افراد کو شورش زدہ افریقی ملک بھیجنے کی اجازت دینے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
ڈی ایچ ایس نے ہفتے کے روز بتایا کہ ان افراد کو ایک دن قبل، یعنی جمعے کو امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر ملک بدر کیا گیا، جب وہ اپنی منتقلی کو روکنے کی آخری قانونی کوشش میں ناکام ہو گئے تھے۔
ملک بدر کیے گئے آٹھ افراد کا تعلق کیوبا، لاؤس، میکسیکو، میانمار، جنوبی سوڈان اور ویتنام سے تھا، جنہیں کئی ہفتوں سے جبوتی میں ایک امریکی فوجی اڈے پر حراست میں رکھا گیا تھا۔
جنوبی سوڈان کے جوبا ایئرپورٹ پر کام کرنے والے ایک اہلکار نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ان افراد کو لے جانے والا طیارہ ہفتے کی صبح 6 بجے مقامی وقت کے مطابق پہنچا، تاہم ان کی موجودہ جگہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ڈی ایچ ایس نے ایک بیان میں کہا کہ ان آٹھوں افراد کو قتل، ڈکیتی، منشیات فروشی اور جنسی زیادتی سمیت سنگین جرائم میں سزا سنائی گئی تھی۔
یہ کیس ٹرمپ انتظامیہ کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کی مہم پر جاری قانونی لڑائیوں میں ایک اہم نکتہ بن گیا تھا، جس میں نام نہاد “تیسرے ممالک” میں ملک بدری بھی شامل ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والوں کو سنگین خطرات اور ممکنہ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈیموکریٹک کانگریس کی رکن پرمیلا جیاپال نے اس ہفتے کے شروع میں سوشل میڈیا پر لکھا تھا، “تیسرے ملکوں میں یہ ملک بدریاں سراسر غلط ہیں۔ امریکہ کو لوگوں کو ایک حقیقی جنگ زدہ علاقے میں نہیں بھیجنا چاہیے۔”
امریکی سپریم کورٹ نے دو بار فیصلہ سنایا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ انہیں ان کے آبائی ممالک سے باہر کے ممالک میں ملک بدر کر سکتی ہے، جس کا تازہ ترین فیصلہ جمعرات کو آیا۔ اس فیصلے کے بعد بوسٹن کے جج برائن مرفی، جنہوں نے پہلے اس ملک بدری کو روکا تھا، نے جمعے کی شام کو فیصلہ دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ بے بس ہیں، جس سے ملک بدری کی راہ ہموار ہوگئی۔
یہ اقدام اس لیے بھی انتہائی متنازع ہے کیونکہ خود امریکی محکمہ خارجہ اپنے شہریوں کو “جرائم، اغوا اور مسلح تصادم” کی وجہ سے جنوبی سوڈان کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس افریقی ملک میں جاری سیاسی بحران ایک وحشیانہ خانہ جنگی کو دوبارہ بھڑکا سکتا ہے جو 2018 میں ختم ہوئی تھی۔
انسانی حقوق کے گروپ اس اقدام کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سینٹر فار جینڈر اینڈ ریفیوجی اسٹڈیز کی قانونی ڈائریکٹر بلین بوکی نے کہا، “انتظامیہ کا تیسرے ممالک میں منتقلی کا بڑھتا ہوا استعمال قانونی عمل کے حقوق، امریکہ کی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں اور انسانی تہذیب کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔”