ادیس ابابا، ایتھوپیا: برطانیہ میں قائم ایک خیراتی ادارے نے جمعرات کو انکشاف کیا ہے کہ چینی ادویات کے لیے سالانہ تقریباً 60 لاکھ گدھوں کو ذبح کیا جاتا ہے، جس کے ان جانوروں پر انحصار کرنے والے افریقی دیہاتیوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس کی بنیادی وجہ چین میں ‘ای جیاؤ’ کی پیداوار میں اضافہ ہے، جو گدھوں کی کھال سے حاصل ہونے والے کولیجن سے بنتی ہے اور اسے صحت کے سپلیمنٹ کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ چین میں قائم تحقیقی فرم ‘چیان ژان’ کے مطابق یہ 6.8 ارب ڈالر کی صنعت ہے۔
چین، جہاں گدھوں کی آبادی 1992 میں 11 ملین سے کم ہو کر 2023 میں 1.5 ملین رہ گئی ہے، اپنی طلب کو پورا کرنے کے لیے افریقہ کا رخ کر رہا ہے۔
گدھوں کی آبادی میں کمی کے پیش نظر، افریقی یونین نے گزشتہ سال گدھوں کو ذبح کرنے پر 15 سالہ پابندی عائد کی تھی۔
برطانوی خیراتی ادارے ‘دی ڈونکی سینکچری’ نے کہا کہ ‘ای جیاؤ’ کی صنعت گدھوں کی کھالوں کی ایک بہت بڑی عالمی تجارت کو فروغ دیتی ہے، جس میں سے زیادہ تر غیر قانونی ہے۔ ادارے نے بتایا کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً 5.9 ملین گدھوں کو ہلاک کیا گیا۔
توقع ہے کہ 2027 تک ‘ای جیاؤ’ کی تجارت کے لیے کم از کم 6.8 ملین گدھوں کی کھالوں کی ضرورت ہوگی۔
گدھوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کا مطلب ہے کہ وہ تیزی سے مجرموں کا ہدف بن رہے ہیں۔ خیراتی ادارے نے کہا، ”تاجر کمزور لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اور بڑے اور جدید نیٹ ورکس کے ذریعے گدھوں کے مالکان پر اپنے جانور فروخت کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔“
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ”غیر قانونی نیٹ ورکس پورے براعظم میں کام کرتے ہیں، جو اکثر بغیر کسی روک ٹوک کے راتوں رات گدھوں کو چوری اور ذبح کرتے ہیں۔ گدھے غیر منظم، غیر انسانی اور غیر صحت بخش حالات میں مر جاتے ہیں، اور بڑی تعداد میں مذبح خانوں تک پہنچنے کے راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔“
اس کے اثرات انسانوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں پر زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں، جو کھیتی باڑی کی سرگرمیوں جیسے ہل چلانے اور بازار تک سامان لے جانے کے لیے گدھوں پر انحصار کرتے ہیں۔
’دی ڈونکی سینکچری‘ کے مطابق ان مجرمانہ کارروائیوں سے صحت کے خطرات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ غیر علاج شدہ کھالوں کی نقل و حمل اور گدھوں کی لاشوں کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے سے متعدی بیماریوں کے پھیلنے اور مقامی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔