ایک ماہر نفسیات کو اپنی حالت بیان کرتے ہوئے پناہ گزین بچے نے کہا، ”میرا دماغ ایک ردی کی ٹوکری کی طرح ہے جس میں بری یادوں کے کاغذ بھرے ہوئے ہیں، جب میں اسکول جاتا ہوں تو وہ میری آنکھوں کے سامنے گرتے ہیں اور جب سوتا ہوں تو خوابوں میں آجاتے ہیں۔“
یہ الفاظ دنیا بھر میں جنگ، ظلم اور غربت سے بھاگ کر پناہ کی تلاش میں نکلنے والے لاکھوں بچوں کی ذہنی اذیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
الجزیرہ کی ایک خصوصی رپورٹ میں ایسے ہی ایک 17 سالہ افغان نوجوان ’سمیر‘ (فرضی نام) کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ سمیر، جو ایک مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) فائٹر بننے کا خواب دیکھتا تھا، بتاتا ہے، ”طالبان کے آنے کے بعد حالات بہت مشکل ہو گئے، جیسے ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہو۔“
سمیر ان 1 کروڑ 33 لاکھ پناہ گزین بچوں میں سے ایک ہے جو آج دنیا بھر میں تحفظ کے محتاج ہیں۔ یہ تعداد بیلجیئم یا سویڈن جیسے ممالک کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ اگر دنیا کی کل پناہ گزین آبادی کو 100 افراد تصور کیا جائے تو ان میں سے 33 بچے ہوں گے۔
**پناہ گزین بچوں کے چیلنجز**
رپورٹ کے مطابق، پناہ گزین بچوں میں 51 فیصد لڑکے اور 49 فیصد لڑکیاں ہیں۔ دونوں کو اپنی جنس کی بنیاد پر مختلف خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو جنسی تشدد کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے جبکہ لڑکوں کو جسمانی تشدد کے دیگر ہولناک تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔
سمیر بتاتا ہے کہ سفر کے دوران سب سے تکلیف دہ حصہ سرحدیں عبور کرنا تھا۔ ”مختلف ممالک کی پولیس ہمیں پکڑتی اور دوسروں کے سامنے مارتی پیٹتی تھی۔ وہ نہ بچوں کو بخشتے تھے اور نہ ہی بڑوں کو۔“
پناہ گزین بچوں کی ایک بڑی تعداد کم عمر ہے۔ 44 فیصد بچے 5 سے 11 سال، 32 فیصد 12 سے 17 سال، اور 24 فیصد 5 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔ ہر عمر کے بچے کو مختلف خطرات کا سامنا ہے، جن میں غذائی قلت، بیماریاں اور تعلیم سے محرومی شامل ہیں۔
**کہاں سے آتے ہیں، کہاں جاتے ہیں؟**
2024 کے اعداد و شمار کے مطابق، پناہ گزین بچوں کی سب سے بڑی تعداد (21 فیصد) افغانستان سے آئی ہے، جس کے بعد شام (20 فیصد)، وینزویلا (14 فیصد) اور جنوبی سوڈان (10 فیصد) ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر بچوں کو 500 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ سمیر کو برطانیہ پہنچنے میں ڈیڑھ سال لگا، اس دوران وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں ٹھنڈ اور بارش کا مقابلہ کرتا رہا۔
زیادہ تر پناہ گزین بچے ترقی یافتہ ممالک کے بجائے ایران (18 لاکھ)، ترکیہ (14 لاکھ) اور یوگنڈا (9 لاکھ 65 ہزار) جیسے ممالک میں پناہ لیتے ہیں۔ سمیر ان چند خوش قسمت بچوں میں سے ایک ہے جو برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
**والدین سے بچھڑنے کا کرب اور ذہنی صحت پر اثرات**
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، تقریباً 1 لاکھ 53 ہزار 300 بچے ایسے ہیں جو اپنے خاندان یا سرپرستوں سے بچھڑ چکے ہیں۔ سمیر بھی ترکیہ میں اپنے بھائی سے جدا ہو گیا تھا اور اسے آج تک اپنے بھائی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنہائی اور سفر کی صعوبتیں بچوں کی ذہنی صحت پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، پناہ گزین بچوں میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کی شرح 23 فیصد، اضطراب کی 16 فیصد اور ڈپریشن کی 14 فیصد ہے، جو عام بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
ماہر نفسیات ڈیوڈ ٹرکی کے مطابق، ”جن بچوں کو پناہ نہیں ملتی، وہ ہر وقت اس خوف میں رہتے ہیں کہ انہیں واپس اسی جگہ بھیج دیا جائے گا جہاں سے وہ بھاگ کر آئے ہیں۔“
تاہم، تمام تر مشکلات کے باوجود سمیر جیسے بچے ہمت نہیں ہارتے۔ وہ پرامید ہے کہ مستقبل میں آنے والی مشکلات پر قابو پا لے گا اور حالات معمول پر آجائیں گے۔