اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے جوہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے والے حملوں کی لہر کے باوجود ایران چند ماہ کے اندر یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اصرار کیا تھا کہ رواں ماہ ہونے والے حملوں نے ایران کے جوہری عزائم کو ‘دہائیوں’ پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ہفتے کے روز سی بی ایس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا کہ اگرچہ ایران کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن کچھ اب بھی ‘موجود’ ہیں۔
رافیل گروسی نے کہا، “وہ چند ماہ کے اندر سینٹری فیوجز کے کچھ کیسکیڈز کو دوبارہ فعال کرکے افزودہ یورینیم پیدا کرنا شروع کر سکتے ہیں،” انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس سے بھی پہلے ممکن ہو سکتا ہے۔
انہوں نے ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخیرے پر تشویش کا اظہار کیا، جو ہتھیاروں کے گریڈ سے محض ایک قدم نیچے ہے۔ نظریاتی طور پر اس ذخیرے کو مزید افزودہ کر کے نو سے زائد جوہری بم بنائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ آئی اے ای اے کو یہ معلوم نہیں کہ آیا یہ ذخیرہ بمباری سے پہلے منتقل کیا گیا تھا یا جزوی طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، “کسی نہ کسی موقع پر اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔”
واضح رہے کہ اسرائیلی حملہ 13 جون کو ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملوں سے شروع ہوا تھا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کیے گئے تھے، جبکہ تہران نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔ امریکہ چند روز بعد اس کارروائی میں شامل ہو گیا تھا اور ایران کی تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
حملوں کے بعد ایرانی قانون سازوں نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی اور گروسی کی جانب سے فورڈو میں زیر زمین افزودگی پلانٹ سمیت دیگر تنصیبات کے معائنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
ایرانی وزارت صحت نے 12 روزہ حملوں کے دوران ملک بھر میں کم از کم 627 شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع دی، جبکہ اسرائیلی حکام کے مطابق ایران کی جوابی کارروائیوں میں اسرائیل میں 28 افراد ہلاک ہوئے۔ ہفتے کے روز ایران کی عدلیہ نے بتایا کہ 23 جون کو تہران کی ایون جیل پر اسرائیلی میزائل حملے میں فوجی اہلکاروں، قیدیوں اور ملاقاتیوں سمیت 71 افراد ہلاک ہوئے تھے۔