دوحہ: اسرائیل کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایران اب اپنے ایٹمی پروگرام کو مزید تیز کرے گا؟ الجزیرہ کے پروگرام “دی باٹم لائن” میں میزبان اسٹیو کلیمونز سے بات کرتے ہوئے کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو نائب صدر اور ایران کے امور کے ماہر، تریتہ پارسی نے اس جنگ کے گہرے اثرات اور مستقبل کے ممکنہ منظرنامے پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔
تریتہ پارسی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تنازع خطے کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہے، خاص طور پر ایران کے جوہری عزائم اور غزہ کی صورتحال پر اس کے اثرات تشویشناک ہیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے معاملے جیسی ہمت دکھائیں تو وہ اسرائیل کو غزہ پر جنگ ختم کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
پروگرام میں تریتہ پارسی نے کئی اہم سوالات پر روشنی ڈالی:
1. ایران کا ایٹمی پروگرام: کیا حالیہ جنگ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو تیز کرنے پر مجبور کرے گی؟ پارسی کا ماننا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے بلااشتعال حملوں کے بعد ایران میں یہ سوچ مزید پختہ ہو سکتی ہے کہ اس کی بقا کے لیے جوہری صلاحیت کا حصول ناگزیر ہے۔
2. امریکہ-ایران تعلقات اور پابندیاں: کیا امریکہ اور ایران کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے جس سے پابندیوں میں نرمی ہو؟ پارسی نے اس امکان کا جائزہ لیا، لیکن موجودہ حالات میں اس کی امید کم ظاہر کی۔
3. یورپی رہنماؤں کا دوہرا معیار: تریتہ پارسی نے اس بات پر تنقید کی کہ یورپی رہنماؤں نے امریکہ اور اسرائیل کے بلااشتعال حملوں کو قانونی جواز فراہم کیا، جبکہ یوکرین کے معاملے پر وہ “قواعد پر مبنی نظام” کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اس دوہرے معیار کو خطے میں عدم استحکام کی ایک وجہ قرار دیا۔
4. ایران کے اتحادی: کیا اس مشکل وقت میں ایران کے کوئی حقیقی اتحادی ہیں؟ پارسی نے اس سوال کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایران عالمی سطح پر کس حد تک تنہائی کا شکار ہے یا اسے کس کی حمایت حاصل ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ مختصر جنگ نے خطے کو ایک نئے اور خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایران کا اگلا قدم، خاص طور پر اس کا ایٹمی پروگرام، نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے، جبکہ غزہ پر اس کے اثرات بھی گہری تشویش کا باعث ہیں۔