امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس دعوے کو دہرایا ہے کہ امریکہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، حالانکہ متعدد انٹیلیجنس رپورٹس اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے بیانات اس دعوے پر سنگین سوالات اٹھا رہے ہیں۔
فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ 13 جون کو اسرائیلی حملے سے قبل ایران ایٹمی ہتھیار بنانے سے “چند ہفتے” دور تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نو دن بعد امریکی حملوں نے ایران کی تین اہم ترین ایٹمی تنصیبات—فوردو، نطنز اور اصفہان—کو “صفحہ ہستی سے مٹا دیا”۔
اس کے برعکس، امریکی انٹیلیجنس اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کا کہنا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا تھا۔ ٹرمپ کے دعوؤں کے باوجود، متعدد بڑے خبر رساں اداروں نے انٹیلیجنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکی حملوں سے یہ تنصیبات مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئیں۔ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے اتوار کو کہا کہ ایران چند مہینوں میں یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے، جبکہ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ حملوں نے ایران کے ایٹمی عزائم کو “کئی دہائیوں” پیچھے دھکیل دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حملوں کی افادیت پر سوال اٹھانے والی خبروں کو “فیک نیوز” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا، “یہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا جیسا کہ کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا، اور اس کا مطلب ہے کہ ان کے ایٹمی عزائم کا خاتمہ ہوگیا۔” ٹرمپ نے ان اطلاعات کو بھی غلط قرار دیا کہ ایران نے حملے سے قبل فوردو سے افزودہ یورینیم ہٹا لیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ “بم گرینائٹ کے پہاڑ سے مکھن کی طرح گزر گیا۔”
انٹرویو میں دیگر موضوعات پر بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ کینیڈا کے ساتھ تجارتی مذاکرات اس وقت تک روک دیے جائیں گے جب تک وہ ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نئے ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کو ختم نہیں کرتا۔ چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بیجنگ کے ساتھ بڑے تجارتی خسارے کے باوجود امریکہ کے چین کے ساتھ تعلقات فی الحال “اچھے چل رہے ہیں”۔ صدر نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک کے لیے ایک خریدار تلاش کر لیا ہے، جس کا اعلان وہ جلد کریں گے۔