یوکرین میں جنگ کا پانسہ پلٹنے کو تیار؟ اکثریت نے امن کیلئے ایسا مطالبہ کردیا کہ سب حیران

کیف، یوکرین – جنگ کی تباہ کاریوں اور طوالت سے تنگ آئے یوکرینی عوام کی اکثریت اب مزید لڑائی کے بجائے روس کے ساتھ امن کے لیے ایک ‘سمجھوتے’ پر آمادہ نظر آتی ہے، جس نے ملک کے اندر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

کیف میں قائم دو اداروں، جانس انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز اینڈ فورکاسٹس اور دی ایس او سی آئی ایس سینٹر فار سوشل اینڈ مارکیٹنگ ریسرچ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ سروے کے مطابق، 56 فیصد یوکرینی باشندے اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے ‘سمجھوتے’ پر راضی ہوجائیں گے۔

اس ‘سمجھوتے’ کا مطلب یہ ہوگا کہ کیف کو یوکرین کے تقریباً پانچویں حصے پر روس کے عملی کنٹرول کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ سروے میں شامل مزید 16.6 فیصد افراد موجودہ فرنٹ لائن پر جنگ بندی کے حق میں ہیں، جبکہ صرف 12.8 فیصد چاہتے ہیں کہ کیف 2014 سے روس کے قبضے میں موجود تمام علاقوں کی واپسی تک جنگ جاری رکھے۔

جنگ سے متاثرہ شہریوں کی کہانیاں اس سروے کے نتائج کی عکاسی کرتی ہیں۔ 35 سالہ ہالینا، جن کا تعلق تباہ حال شہر ماریوپول سے ہے، کہتی ہیں، “میں چاہتی ہوں کہ یہ ڈراؤنا خواب ختم ہو۔ میں ہر رات فضائی حملوں کے سائرن اور ہر صبح مرنے والے بچوں اور گھروں میں زندہ جل جانے والے لوگوں کی خبریں نہیں پڑھنا چاہتی۔” ہالینا نے مارچ 2022 میں اپنے شوہر کو ایک بم دھماکے میں کھو دیا تھا اور اب وہ امن کے لیے اپنے گھر واپس جانے کے خواب کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جنگ نے یوکرین کے ہر چار میں سے ایک شہری یعنی ایک کروڑ سے زائد افراد کو بے گھر کیا ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں میں موجود ہیں وہ بھی مسلسل خوف اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ کیف کے ایک 51 سالہ بینک کلرک اولیکسی سویڈیرینکو نے اپنی حالت کو ‘پارانویا’ قرار دیتے ہوئے کہا، “ہر رات میں اس تیاری میں سوتا ہوں کہ کسی بھی وقت ایک ایرانی ساختہ روسی ڈرون میرے اپارٹمنٹ میں آ گرے گا۔”

ایک ماہر نفسیات، سویتلانا چونیخینا کے مطابق، “جنگ نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے، جس سے روزمرہ کی زندگی میں مختلف حجم کے خلا پیدا ہوگئے ہیں۔ سب سے بڑی کمی تحفظ، استحکام اور انصاف کی ہے۔ ہم سب یوکرین میں معذوروں کی طرح جی رہے ہیں، لیکن ہماری معذوری وجودی ہے۔”

یہ احساسات مغربی ممالک سے مایوسی کی وجہ سے مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت مغربی رہنماؤں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ ٹرمپ نے جنگ کو ’24 گھنٹے’ میں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں اسے ‘طنز’ قرار دے دیا۔

کیف میں قائم پینٹا تھنک ٹینک کے سربراہ وولودیمیر فیسینکو کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے سمجھوتے کے ذریعے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جنگ ختم کرنے کے لیے صرف فوجی راستے پر انحصار نہیں کر سکتے۔”

تاہم، شہریوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کے باوجود، یوکرینی افواج ماسکو کے موسم گرما کے حملوں کو روکنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اگرچہ روس نے اس سال تقریباً 5,000 مربع کلومیٹر پر قبضہ کیا ہے، لیکن یہ 2022 کے حملے کے ابتدائی پانچ ہفتوں میں قبضے میں لیے گئے 120,000 مربع کلومیٹر کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں