ابوظبی: متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں پاکستانی آموں کی خوشبو اور ذائقے نے سفارتکاروں، معززین اور آم کے شوقین افراد کے دل جیت لیے۔ یہ محض ایک پھل کا میلہ نہیں تھا، بلکہ یہ ‘میٹھی سفارت کاری’ کا ایک عملی مظاہرہ تھا جہاں ذائقے کی سفارتکاری نے دنیا بھر کے نمائندوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
یہ تقریب تجارت، ذائقے اور بین الاقوامی دوستی کا ایک حسین امتزاج تھی، جسے ابوظبی میں پاکستانی سفارتخانے نے اوورسیز فاؤنڈیشن پاکستان کے تعاون سے ترتیب دیا تھا۔
فیسٹیول میں سندھڑی سے لے کر آم سے بنی پیسٹریوں اور ٹھنڈے ٹھار چونسے کے اسموتھیز تک، انواع و اقسام کی ڈشز نے مہمانوں کے ذائقے کو ایک ایسا سفر کرایا جو سیدھا پنجاب اور سندھ کے باغات تک لے گیا۔
**آم—نئے سفارتکار**
متحدہ عرب امارات میں تعینات پاکستانی سفیر فیصل نیاز ترمذی نے متحدہ عرب امارات کے شیخ مبارک بن سلطان النہیان کے ہمراہ تقریب کا افتتاح کیا۔ انہوں نے کہا: “یہ آم صرف ایک پھل نہیں بلکہ پاکستان کے ذائقے کا سفیر ہے۔”
سفیر ترمذی نے آم کو پاکستان کی ‘سافٹ ڈپلومیسی’ کا ایک لازمی حصہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا، “پاکستان دنیا بھر میں آم برآمد کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ ہمارے آم محبت، فراخدلی اور مہمان نوازی کی علامت ہیں۔”
**’آپ کے ملک کی طرح میٹھے’**
تقریب کا اصل مرکز صرف پھل ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سفارت کاروں کے وہ تاثرات تھے جو پاکستانی آموں کے ذائقے کے اسیر ہو گئے۔
فن لینڈ کی سفیر تُولا یوریولا نے کہا، “یہ بالکل لذیذ ہیں۔ آم میرا پسندیدہ پھل ہے اور پاکستانی آم تو لاجواب ہیں۔ فن لینڈ میں ان کا وہ ذائقہ نہیں ملتا، فاصلے سے فرق پڑتا ہے۔ اسی لیے میں یہاں کچھ آم فریز کر رہی ہوں تاکہ سال بھر اسموتھیز اور میٹھوں میں ان کا لطف اٹھا سکوں۔”
دبئی میں جرمن قونصل جنرل، سبیلہ فاف نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “میں نے یہاں آموں کی جو اقسام دیکھی ہیں وہ حیران کن ہیں۔ میٹھے، نمکین، ہر طرح کے! جرمنی میں آپ کو ایک یا دو قسمیں ہی ملتی ہیں، لیکن یہاں پانچ، چھ، دس اقسام ہیں! یہ ذائقوں کا ایک تہوار ہے۔”
رومانیہ کے ایک تجربہ کار سفارتکار سلویو جیپا نے کہا، “میں نے 38 سالہ کیریئر میں کئی ممالک میں کام کیا ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ہمیشہ آموں کو فروغ دینے میں کامیاب رہتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سب سے میٹھے اور شاندار آم پاکستان سے آتے ہیں۔ آپ اس پھل کو ایک تحفے کی طرح فروغ دیتے ہیں، یہ آپ کے ملک کی طرح میٹھا ہے۔”
**میٹھی تجارت: کاروبار اور سفارتکاری کو فروغ**
متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے ٹریڈ قونصلر علی زیب نے اس مٹھاس کے پیچھے اقتصادی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، “اس سال موسمیاتی چیلنجوں کے باوجود، صرف متحدہ عرب امارات کو آم کی برآمدات 25 سے 30 ملین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ لیکن یہ صرف تجارت کا معاملہ نہیں، یہ اس گرمجوشی کا بھی ہے جو آم اپنے ساتھ لاتے ہیں، وہ کہانیاں سناتے ہیں اور دوستیاں استوار کرتے ہیں۔”
فیسٹیول میں آم کے جوس، کیک، پیسٹری، چٹنیاں اور آم سے بنی دیگر اشیاء نے مہمانوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بے حد متاثر کیا۔
اوورسیز فاؤنڈیشن پاکستان کے ڈاکٹر فرحان نے کہا، “جو ایک سادہ سی آم چکھنے کی تقریب کے طور پر شروع ہوا تھا، وہ اب ایک تجارتی اور ثقافتی نمائش میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ ایک آم کی تحریک ہے۔”
آخر میں، جو پھل کے چند قتلے تھے، وہ سفارتکاری کے قتلے بن گئے—میٹھے، نرم اور ناقابلِ فراموش۔ پاکستانی مینگو فیسٹیول نے نہ صرف ایک فصل کا جشن منایا، بلکہ یہ بھی دکھایا کہ ایک ملک اپنی کہانی صرف پالیسیوں اور سیاست سے نہیں، بلکہ ذائقے، خوشبو اور دوستی کے ذریعے بھی بیان کرسکتا ہے۔