جیل سے نیا حکم آگیا؟ قریشی، یاسمین راشد اور دیگر رہنماؤں نے قیادت کو کیا پیغام بھیج دیا؟

پی ٹی آئی کے قید رہنماؤں کا قیادت کو ’مذاکراتی عمل‘ شروع کرنے پر زور

لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جیل میں قید سینئر رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو ایک مشترکہ خط لکھا ہے جس میں ملک میں جاری ’عدم استحکام‘ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

خط پر شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز احمد چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کے دستخط ہیں، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سیاسی بحران کے حل کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت متعدد رہنما تقریباً ایک سال سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو بنیادی طور پر 9 مئی کے احتجاج سے متعلق الزامات کا سامنا ہے، جس میں جناح ہاؤس سمیت ریاستی تنصیبات پر حملہ کیا گیا تھا۔

جیو نیوز کو موصول ہونے والے خط میں قید رہنماؤں نے تجویز دی ہے کہ مذاکرات کو صرف سیاسی فریقین تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ’طاقتور حلقوں‘ کے ساتھ بھی بات چیت کی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید سفارش کی ہے کہ پارٹی کے سرپرست اعلیٰ تک رسائی کو آسان بنایا جائے تاکہ مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل میں مدد مل سکے۔

خط میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ قید رہنماؤں کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ بات چیت کو یک وقتی کوشش کے بجائے مسلسل جاری رہنا چاہیے۔

9 مئی کے واقعات

9 مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں اور حامیوں نے ملک بھر میں مظاہرے کیے تھے، جب پارٹی کے بانی چیئرمین کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی ہدایت پر ایک مبینہ کرپشن کیس میں نیم فوجی دستوں نے گرفتار کیا تھا۔

مظاہرین نے سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کیا، فوجی تنصیبات— راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) اور لاہور کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس)— پر حملہ کیا اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کی۔

ان واقعات کے بعد، سول اور عسکری قیادت نے 9 مئی کو غنڈہ گردی، آتش زنی، سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑ، حساس فوجی تنصیبات پر حملے اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی میں ملوث تمام افراد کو آرمی ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت مثالی سزا دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

واضح رہے کہ اپریل 2022 میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل ہونے والے سابق وزیراعظم کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے کرپشن سے لے کر دہشت گردی تک کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔

خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں جب انہیں 8 فروری کے انتخابات سے قبل متعدد مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ لکھیں