سزائے موت کا خوف: 4 یونیورسٹی طلبہ کے سفاک قاتل نے بالآخر سچ اُگل دیا

امریکی ریاست ایڈاہو میں 2022 میں چار یونیورسٹی طلبہ کے سفاکانہ قتل کے الزام میں گرفتار کرمنالوجی کے سابق ڈاکٹریٹ طالبعلم نے سزائے موت سے بچنے کے لیے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔

30 سالہ برائن کوہبرگر نے ایک معاہدے کے تحت قتل کا اعتراف کیا، جس کے بعد استغاثہ سزائے موت کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اس کیس نے اپنی بربریت اور ایک ایسے پرامن کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیلانے کی وجہ سے پورے امریکہ میں تہلکہ مچا دیا تھا جہاں قتل کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

بدھ کو ہونے والی سماعت میں جج اسٹیون ہپلر کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کوہبرگر نے اعتراف کیا۔ جج نے پوچھا، “کیا آپ نے 13 نومبر 2022 کو ماسکو، ایڈاہو میں 1122 کنگ روڈ کی رہائش گاہ میں قتل کی نیت سے داخل ہوئے تھے؟” کوہبرگر نے جواب دیا، “جی ہاں۔”

جج نے مزید پوچھا، “کیا آپ اس لیے جرم کا اعتراف کر رہے ہیں کیونکہ آپ مجرم ہیں؟” جس پر کوہبرگر نے “جی ہاں” میں جواب دیا۔

اس سے قبل کوہبرگر نے فرسٹ ڈگری قتل اور چوری کے الزامات میں صحت جرم سے انکار کیا تھا۔ تاہم، بدھ کو اس نے عدالت میں تصدیق کی کہ وہ ایڈاہو یونیورسٹی کے چار طلبہ کے کرائے کے گھر میں داخل ہوا اور انہیں قتل کر دیا۔ استغاثہ نے قتل کا مقصد ظاہر نہیں کیا ہے۔

معاہدے کے تحت، کوہبرگر کو لگاتار چار عمر قید کی سزائیں سنائی جائیں گی اور وہ اپنی سزا کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی درخواست کا حق کھو دے گا۔ سزا سنانے کی رسمی تاریخ 23 جولائی مقرر کی گئی ہے۔

اس قتل نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ابتدائی طور پر الجھا دیا تھا اور ماسکو کے دیہی کالج ٹاؤن کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جہاں پانچ سال سے کوئی قتل نہیں ہوا تھا۔

مقتولین کی شناخت کیلی گونکالویز، ایتھن چیپن، زانا کرنوڈل اور میڈیسن موگن کے نام سے ہوئی تھی، جن کی عمریں 20 یا 21 سال تھیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس کے مطابق ہر ایک کو متعدد بار چاقو کے وار کرکے قتل کیا گیا اور ان کے جسم پر مزاحمت کے زخم بھی پائے گئے۔

استغاثہ کے مطابق، ایک زندہ بچ جانے والی روم میٹ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے قتل کی رات کسی کے رونے کی آواز سنی اور جب دروازہ کھولا تو ایک سیاہ لباس میں ملبوس شخص کو گھر سے باہر جاتے دیکھا۔

حکام نے کوہبرگر کو ڈی این اے شواہد، سیل فون ڈیٹا اور ویڈیو فوٹیج کی مدد سے قتل سے جوڑا۔ اسے قتل کے چند ہفتوں بعد پنسلوانیا سے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں وہ اپنے خاندان سے ملنے گیا تھا۔

مقتولہ کیلی گونکالویز کے اہل خانہ نے ایک وکیل کے ذریعے بیان میں اس معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے “خفیہ ڈیل اور متاثرین کے خاندانوں سے مشاورت کے بغیر کیس کو جلد بند کرنے کی کوشش” قرار دیا۔ تاہم، موگن کے اہل خانہ کے وکیل نے کہا کہ وہ اس معاہدے کی “100 فیصد حمایت کرتے ہیں” اور اس سے انہیں سکون ملا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں