ٹرمپ کو بڑا عدالتی جھٹکا، جنوبی سرحد پر پناہ گزینوں پر پابندی کا منصوبہ روک دیا گیا

واشنگٹن: ایک امریکی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امیگریشن پر وسیع کریک ڈاؤن کے حصے کے طور پر، امریکہ کی جنوبی سرحد پر پناہ کے دعوؤں پر پابندی لگانے کے اقدام کو روک دیا ہے۔

بدھ کے روز، امریکی ڈسٹرکٹ جج رینڈولف ماس نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے اقدامات سے کانگریس کے بنائے ہوئے قوانین سے الگ ایک ‘صدارتی حکم نامے پر مبنی متبادل امیگریشن سسٹم’ بننے کا خطرہ ہے۔

امریکہ نے پہلے ہی اپنے قوانین میں پناہ کے حق کو شامل کر رکھا ہے۔ لیکن 20 جنوری کو دوسری مدت کے لیے عہدہ سنبھالنے پر، صدر ٹرمپ نے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ (INA) کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا۔ تاہم، سابق صدر براک اوباما کے نامزد کردہ جج ماس نے اپنے 128 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اس دعوے کو مسترد کر دیا۔

جج ماس نے لکھا، ‘آئی این اے یا آئین میں کوئی بھی چیز صدر یا ان کے نمائندوں کو وہ وسیع اختیارات نہیں دیتی جس کا دعویٰ اعلامیے میں کیا گیا ہے۔’ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صدر کے پاس امریکی امیگریشن قانون کے ‘جامع قوانین اور طریقہ کار’ کو ایک ‘غیر قانونی، غیر ضابطہ نظام’ سے تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ٹرمپ نے میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی جنوبی سرحد پر امیگریشن کو غیر ملکی طاقتوں کی قیادت میں ایک ‘حملہ’ قرار دیا ہے اور اسی دلیل کو پناہ جیسے حقوق معطل کرنے کے لیے ہنگامی اختیارات کے استعمال کا جواز بنایا ہے۔

تاہم، جج ماس نے فیصلہ دیا کہ پناہ کو معطل کرنے سے ظلم و ستم کا سامنا کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود، انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو اپیل کرنے کے لیے 14 دن کی مہلت دی ہے، اور توقع ہے کہ انتظامیہ ایسا کرے گی۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان ابیگیل جیکسن نے فیصلے کے جواب میں کہا، ‘ایک مقامی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ صدر ٹرمپ اور امریکہ کو غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے غیر ملکیوں کے سیلاب سے ہماری سرحد کو محفوظ بنانے سے روکے۔ ہمیں امید ہے کہ اپیل میں ہماری جیت ہوگی۔’

عدالت میں، انتظامیہ نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ صرف اسے یہ تعین کرنے کا حق ہے کہ امریکہ پر حملہ ہو رہا ہے یا نہیں۔

یہ فیصلہ تارکین وطن کے حقوق کے گروپوں، بشمول فلورنس پروجیکٹ، لاس امریکاس امیگرینٹ ایڈووکیسی سینٹر اور RAICES کی جانب سے دائر کی گئی ایک کلاس ایکشن شکایت کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے بدھ کے فیصلے کو کانگریس کے اختیارات اور تارکین وطن کے حقوق کے تحفظ میں ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے سراہا ہے۔ ACLU کے وکیل لی گلرنٹ نے امریکی میڈیا کو بتایا، ‘صدر صرف یہ دعویٰ کر کے کانگریس کے منظور کردہ قوانین کو ختم نہیں کر سکتے کہ پناہ کے متلاشی حملہ آور ہیں۔’

اپنا تبصرہ لکھیں