واشنگٹن/غزہ: امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ‘سختی’ سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد غزہ میں بالآخر جنگ بندی کے امکانات پر بحث تیز ہوگئی ہے۔
الجزیرہ کے پروگرام ‘دی باٹم لائن’ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے اس سوال کا جائزہ لیا کہ کیا امریکہ کے پاس اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کی صلاحیت ہے، جبکہ بظاہر اسرائیلی قیادت 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع کی گئی ‘لامتناہی جنگ’ کو ختم کرنے کی خواہش نہیں رکھتی۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے وزٹنگ اسکالر خالد الگندی نے مؤقف اختیار کیا کہ امریکہ کے پاس اسرائیل پر اتنا اثر و رسوخ موجود ہے کہ وہ جنگ بندی پر مجبور کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اسرائیلی رہنما جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں، لیکن امریکی دباؤ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب، صدر بائیڈن کی غزہ پالیسیوں پر احتجاجاً محکمہ خارجہ سے مستعفی ہونے والی سابق اہلکار اینیل شیلین نے دلیل دی کہ اسرائیل کی جنگ ‘حقیقت میں حماس کے بارے میں نہیں’ تھی، بلکہ اس کا مقصد غزہ، مغربی کنارے اور وسیع خطے پر اسرائیلی کنٹرول کا حصول تھا۔
اینیل شیلین اور خالد الگندی نے میزبان اسٹیو کلیمونز کے ساتھ مجوزہ جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات پر بھی روشنی ڈالی اور اس بات کا جائزہ لیا کہ کیا عالمی طاقتوں کی کوششیں غزہ میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔