دل کے قریب لگی گولی! یروشلم میں اسرائیلی اسنائپرز نے پیزا کھاتے 12 سالہ بچے کو نشانہ بنا ڈالا

دل کے قریب لگی گولی! یروشلم میں اسرائیلی اسنائپرز نے پیزا کھاتے 12 سالہ بچے کو نشانہ بنا ڈالا

مقبوضہ مشرقی یروشلم: مقبوضہ مشرقی یروشلم کے علاقے الطور میں 16 جون کو ایک فلسطینی خاندان پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب اسرائیلی اسنائپرز نے فائرنگ کر کے دو نوجوانوں کو شدید زخمی کر دیا۔ 21 سالہ عدی ابو جمعہ اور 12 سالہ ایاس ابو مفرح ایک خاندانی تقریب کے دوران پیزا کھا رہے تھے کہ ان پر حملہ کیا گیا۔

ابو جمعہ خاندان اپنی دادی کی حج سے واپسی اور خاندان کی ایک بیٹی کی فلسطینی قومی امتحانات میں شاندار کامیابی کا جشن منا رہا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق، اس رات محلے میں مکمل سکون تھا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ ایاس اور عدی اپنے دادا کے گھر کے باہر کار کے پاس بیٹھے پیزا کھا رہے تھے جب اچانک ان پر فائرنگ کی گئی۔

بعد میں پڑوسیوں کے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج سے انکشاف ہوا کہ تقریباً 500 میٹر دور ایک چھت پر تعینات دو اسرائیلی اسنائپرز نے بغیر کسی وارننگ کے خاندان پر فائرنگ کی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایاس اور عدی شدید زخمی ہوگئے اور خون پیزا پر بہنے لگا۔

ایاس کی والدہ، نسرین ابو مفرح نے بتایا، “سب صدمے میں تھے، ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہماری گلی سے فوج کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔”

اہل خانہ جب زخمیوں کو اسپتال لے جانے لگے تو اسرائیلی پولیس نے ایمبولینس کو روک کر ایاس کے والد کو حراست میں لے لیا۔ پولیس نے الزام عائد کیا کہ لڑکوں نے مولوٹوف کاک ٹیل اور آتش بازی کا سامان پھینکا تھا، جس پر اسرائیلی فورسز نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی۔

ایاس اور عدی کو لگنے والے زخم انتہائی شدید تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق، ایاس خوش قسمت ہے کہ زندہ بچ گیا کیونکہ گولی اس کے دل سے چند سینٹی میٹر کے فاصلے پر لگی، جس سے اس کے بائیں کندھے میں ایک بڑا زخم آیا اور اعصاب اور شریانوں کو شدید نقصان پہنچا۔ عدی کے پیٹ میں گولی لگی جو اس کی کمر سے باہر نکلی اور اس کے اعصاب، شریانوں اور ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے اس کے دوبارہ چلنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔

ڈاکٹروں نے بتایا کہ لڑکوں کو ”ڈم ڈم“ گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، جن پر جنگ میں استعمال کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت پابندی عائد ہے۔

ایاس کے بڑے بھائی عامر ابو مفرح نے اسپتال میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس رہتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا اور کہا، ”ایک 12 سالہ بچے کو گولی مارنے کا کیا جواز ہے جو اپنے کزن کے ساتھ پیزا کھا رہا تھا؟“

اہل خانہ اور مقامی کمیونٹی کے مطابق، حملے کے اگلے دن اسرائیلی پولیس نے جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول اور دیگر شواہد ہٹا دیے اور خون بھی صاف کر دیا۔ خاندان کا کہنا ہے کہ پولیس کا مقصد افراتفری پیدا کرنا اور پھر جائے وقوعہ سے فرار ہونا تھا۔

یہ واقعہ جون میں اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ تنازع کے دوران مشرقی یروشلم کے فلسطینی باشندوں پر اسرائیلی کریک ڈاؤن کے متعدد واقعات میں سے ایک ہے۔ اس دوران کئی فلسطینی علاقوں میں ناکے لگائے گئے، رات کے وقت چھاپے مارے گئے اور مذہبی مقامات جیسے حرم الشریف میں بھی مسلمانوں کے داخلے پر پابندیاں عائد کی گئیں۔

ایک اسرائیلی این جی او ”اِر آمیم“ کے محقق ایویو تتارسکی نے کہا، ”اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ اسی طرح کے پرتشدد اقدامات کے ذریعے نمٹتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اسے جوابدہ نہیں ٹھہرا رہا۔“

ایاس ابو مفرح اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہے اور متعدد سرجریوں سے گزر چکا ہے، جبکہ اس کا کزن ممکنہ طور پر عمر بھر کے لیے معذور ہوچکا ہے۔ ایاس نے اپنے اسپتال کے بستر سے کہا، ”میں صرف گھر واپس جانا چاہتا ہوں، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا اور اسکول جانا چاہتا ہوں۔“

اپنا تبصرہ لکھیں