ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان جاری اعلیٰ سطحی مذاکرات کا مقصد حماس کے ساتھ کسی بھی قسم کی باضابطہ بات چیت سے قبل ہی غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کو حتمی شکل دینا ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار زیویئر ابو عید نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ مذاکرات ایک ایسی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کے تحت بعد میں پہلے سے طے شدہ نتائج کو مسلط کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، امریکہ اور اسرائیل مشترکہ طور پر ایک ایسا فریم ورک تیار کر رہے ہیں جسے بعد میں حماس کے سامنے ’حتمی‘ پیشکش کے طور پر رکھا جائے گا، بجائے اس کے کہ مذاکرات کی میز پر لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔
زیویئر ابو عید کا کہنا تھا کہ، “یہ مذاکرات اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ بعد میں ایک متفقہ نتیجے کو نافذ کیا جا سکے۔” اس نقطہ نظر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا مقصد حقیقی مذاکرات کے بجائے اپنی شرائط منوانا ہے۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے بین الاقوامی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم، تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل نے یکطرفہ طور پر شرائط طے کر لیں تو اس سے مذاکرات کا عمل مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے اور ایک پائیدار امن کے حصول میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس حکمت عملی کا مقصد حماس پر دباؤ بڑھانا اور انہیں ایک ایسے معاہدے پر مجبور کرنا ہو سکتا ہے جو بنیادی طور پر اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔