حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر یوکرین کے ساتھ ہونے والے معدنیات کے معاہدے کو یوکرین کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ایک تجزیے کے مطابق یہ مغربی دباؤ کی پالیسی کا تسلسل ہے جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری ہے۔
16 جون کو یوکرینی حکومت نے ملک میں لیتھیم کے ذخائر کی کان کنی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں سے بولیاں طلب کیں۔ دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں میں ایک کنسورشیم بھی شامل ہے جس کا تعلق رونالڈ ایس لاڈر سے ہے، جو صدر ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ معاہدہ امریکی فوجی امداد کے بدلے میں یوکرین کی معدنی دولت تک رسائی کے لیے کیا گیا ہے، جسے ٹرمپ نے ”ادائیگی“ قرار دیا تھا۔
اس معاہدے کو بہت سے لوگ یوکرین کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور جنگ کے دوران اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، یہ یوکرین اور مغرب کے درمیان تعلقات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے کیف کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے جو یوکرینی عوام کے مفاد میں نہیں۔
**داخلی امور میں مداخلت**
مغربی اثر و رسوخ کی سب سے مشہور مثال سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کا معاملہ ہے، جو مئی 2014 میں یوکرینی گیس کمپنی ‘بوریسما’ کے بورڈ ممبر بنے تھے۔ اس وقت جو بائیڈن نائب صدر تھے اور امریکہ-یوکرین تعلقات کے ذمہ دار بھی۔ ہنٹر بائیڈن ماہانہ 50 ہزار ڈالر تک کماتے رہے۔ جو بائیڈن نے اس وقت کے یوکرینی صدر پیٹرو پوروشینکو کو دھمکی بھی دی تھی کہ اگر انہوں نے واشنگٹن کے ناپسندیدہ پراسیکیوٹر جنرل کو نہ ہٹایا تو 1 ارب ڈالر کی امریکی امداد روک دی جائے گی۔
صدر بننے کے بعد بھی بائیڈن انتظامیہ اور یورپی یونین نے صدر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ ملکی عدالتوں میں ججوں کے انتخاب میں غیر ملکی ماہرین کو کلیدی کردار دیں۔ اس دباؤ کے تحت یوکرینی حکومت نے کئی دیگر غیر مقبول قوانین بھی منظور کیے۔ 2020 میں نجی زرعی زمین کی فروخت پر پابندی ہٹا دی گئی، حالانکہ زیادہ تر یوکرینی عوام اس کے خلاف تھے۔ اس فیصلے کے بعد یوکرین کا زرعی شعبہ بڑی، برآمدی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنٹرول میں چلا گیا، جس سے ملک کی غذائی تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہوئے۔
ان قوانین کو چیلنج کرنے کی کوششوں کو عدلیہ پر حملوں کے ذریعے ناکام بنایا گیا۔ جب کیف کی ضلعی انتظامی عدالت نے عدالتی اصلاحات کے قانون کو آئین اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا تو اس کے سربراہ جج پر امریکہ نے کرپشن کے الزامات لگا کر پابندیاں عائد کر دیں، جس کے بعد صدر زیلنسکی نے عدالت ہی تحلیل کر دی۔
**معاشی خود مختاری پر دباؤ**
یوکرین کی معیشت پر بھی غیر ملکی دباؤ ڈالا گیا۔ 2016 میں یوکرین میں امریکی سفیر نے ملک پر ”زرعی سپر پاور“ بننے پر زور دیا، جس کے بعد ملک میں صنعت کاری کا عمل ختم ہوتا گیا۔ 2010 سے 2019 تک جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 3.7 فیصد کم ہوا جبکہ زراعت کا حصہ 3.4 فیصد بڑھ گیا۔ اس کا فائدہ یوکرینی عوام کو نہیں ہوا اور 2022 تک 28 فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا، جو یورپی یونین کے مقابلے میں دوگنا ہے۔
یورپی یونین کے ساتھ 2016 کے آزاد تجارتی معاہدے نے بھی کم لاگت کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کی، جس کی وجہ سے یوکرینی مصنوعات یورپی منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتیں جبکہ یورپی مصنوعات نے یوکرین کی مارکیٹ بھر دی۔ 2020 میں زیلنسکی حکومت نے یوکرینی صنعت کے تحفظ کے لیے بل 3739 متعارف کرانے کی کوشش کی، لیکن امریکہ، یورپی یونین اور مغربی حمایت یافتہ این جی اوز کی شدید تنقید کے بعد اسے اہم ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا، جس میں امریکی اور یورپی کمپنیوں کو استثنیٰ دیا گیا۔
اس تمام پس منظر میں ٹرمپ کا معدنی معاہدہ مغربی پالیسی میں کسی تبدیلی کے بجائے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکی صدر نے عوامی سطح پر وہ کچھ دکھا دیا جو مغربی رہنما عموماً بند دروازوں کے پیچھے کرتے ہیں۔
(اس مضمون میں بیان کردہ خیالات مصنف کے اپنے ہیں اور ضروری نہیں کہ الجزیرہ کے ادارتی موقف کی عکاسی کریں۔)