غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر خان یونس کے ناصر ہسپتال میں ایک تین سالہ بچہ، عمرو الھمس، بستر پر بے حس و حرکت پڑا ہے، اس کے دماغ میں اسرائیلی فضائی حملے کا ایک چھرا پیوست ہے جو اس کی زندگی کے لیے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔
اس حملے نے عمرو سے چلنے اور بولنے کی صلاحیت چھین لی ہے، لیکن اس کی آنکھیں ہر وقت اپنی ماں کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔ یہ بات اس کی پھوپھی نور نے بتائی جو اب اس کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔
یہ المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب عمرو کی والدہ، ایناس، جو نو ماہ کی حاملہ تھیں، اپنے خاندان کے ہمراہ شمالی غزہ میں اپنے والدین سے ملنے گئیں۔ اسی رات ان کے خیمے پر اسرائیلی حملہ ہوا، جس میں ان کی والدہ، ان کا غیر پیدائشی بچہ، عمرو کے دو بہن بھائی اور اس کے دادا شہید ہو گئے۔
اس قیامت خیز حملے میں عمرو معجزانہ طور پر بچ گیا لیکن شدید زخمی حالت میں اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں اسے سانس لینے کے لیے ٹیوب لگائی گئی۔ اس کے والد غم سے نڈھال ہیں اور بمشکل ہی بات کر پاتے ہیں۔
اب عمرو کو خان یونس کے ناصر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت سے عام وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے، لیکن وہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ اسرائیل کی مہینوں سے جاری ناکہ بندی کی وجہ سے وہ مقوی دودھ بھی دستیاب نہیں جو اس کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
اس کی پھوپھی نور اسے سرنج کے ذریعے مسور کی دال کا سوپ پلاتی ہیں۔ وہ رات بھر اس کے پاس سوتی ہیں، اس کے ڈائپر تبدیل کرتی ہیں اور دوروں کے دوران اسے تسلی دیتی ہیں۔
نور نے روتے ہوئے بتایا، ”میں اسے کہتی ہوں کہ تمہاری ماں جلد واپس آجائے گی۔ کبھی کبھی میں اسے کھلونا دیتی ہوں، لیکن وہ روتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی ماں کو بہت یاد کرتا ہے۔“
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عمرو کو جنگی علاقے سے فوری طور پر نکالنے کی ضرورت ہے۔ خصوصی دیکھ بھال اور تھراپی کے بغیر، اس کے دماغی زخم مستقل معذوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ نور نے مزید کہا، ”اس کا دماغ ابھی نشوونما کے مرحلے میں ہے۔ کیا وہ دوبارہ چل سکے گا؟ کیا وہ دوبارہ بول سکے گا؟ جب تک وہ غزہ میں ہے، اس کی صحت یابی کا کوئی امکان نہیں۔“