تائیوان میں خوف کے سائے: ظالم بروکر سسٹم سے تنگ آ کر ہزاروں تارکینِ وطن روپوش کیوں ہو گئے؟

تائیچنگ شہر، تائیوان – تائیوان میں بہتر مستقبل کا خواب لے کر آنے والے ہزاروں تارکین وطن کارکنوں کے لیے زندگی ایک ڈراؤنا خواب بنتی جا رہی ہے۔ یہاں کا سخت اور ظالمانہ ’بروکر سسٹم‘ انہیں قانونی ملازمتیں چھوڑ کر غیر قانونی طور پر روپوش ہونے پر مجبور کر رہا ہے، جہاں وہ ہر لمحہ گرفتاری کے خوف میں زندگی گزارتے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ چار سالوں میں تائیوان میں غیر دستاویزی (undocumented) تارکین وطن کی تعداد دوگنی ہو کر 90 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اس تشویشناک اضافے کی سب سے بڑی وجہ وہ پرائیویٹ ایمپلائمنٹ ایجنٹس ہیں، جنہیں ’بروکرز‘ کہا جاتا ہے، جو تارکین وطن کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کنٹرول کرتے ہیں۔

45 سالہ فلپائنی تارک وطن برنارڈ (فرضی نام) نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ وہ 2016 میں قانونی طور پر تائیوان آیا تھا لیکن 2024 سے وہ غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے بروکر نے اس کا پاسپورٹ ضبط کرنے اور اسے بغیر واجبات کی ادائیگی کے نوکری چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ انکار پر بروکر نے اسے دوسری کمپنیوں میں بلیک لسٹ کر دیا، جس کے بعد اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اسے اپنا ویزا ختم ہونے کے بعد بھی غیر قانونی طور پر تعمیراتی شعبے میں کام کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

برنارڈ کا کہنا ہے کہ ”اب میں خود کو ایک پنجرے میں قید پرندے کی طرح محسوس کرتا ہوں۔“ وہ عوامی مقامات پر اس قدر خوفزدہ رہتا ہے کہ لفظ ’غیر قانونی‘ بھی زبان پر نہیں لاتا۔

تائیوان میں لیبر منسٹری کو موصول ہونے والی تارکین وطن کی ایک تہائی سے زائد شکایات بروکرز سے متعلق ہوتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوری 2025 تک غیر قانونی تارکین وطن میں سب سے زیادہ تعداد ویتنامی شہریوں کی (57,611) تھی، جس کے بعد انڈونیشیائی (28,363) اور فلپائنی (2,750) تھے۔

تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بروکرز کا نظام ہی اس مسئلے کی جڑ ہے۔ تائیچنگ شہر میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہ چلانے والے کیتھولک پادری جوئے تاجونیرا نے کہا کہ ”یہ نظام بروکرز کو تارکین وطن کے استحصال کا اختیار دیتا ہے، جبکہ مالکان معصوم بنے رہتے ہیں۔“ بروکرز کارکنوں کی تنخواہ سے ماہانہ 50 سے 60 ڈالر کاٹتے ہیں اور نوکری کی تبدیلی، انشورنس اور دیگر دستاویزات کے لیے بھی بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔

حکومتی ردعمل پر تنقید کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت مسئلے کی جڑ کو حل کرنے کے بجائے تارکین وطن پر جرمانے بڑھا رہی ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے ویزا کی مدت سے زیادہ قیام کرنے والے تارکین وطن پر جرمانہ 330 ڈالر سے بڑھا کر 1,657 ڈالر کر دیا ہے، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے لوگ خود کو حکام کے حوالے کرنے سے مزید گریز کریں گے۔

بچوں کی دیکھ بھال اور ماہی گیری جیسے شعبوں میں کام کرنے والے کارکن سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں کیونکہ ان پر تائیوان کا 944 ڈالر ماہانہ کم از کم اجرت کا قانون لاگو نہیں ہوتا، اور انہیں اکثر اس سے نصف تنخواہ ملتی ہے۔

میری (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی تھی لیکن کم اجرت اور بروکر کے ناروا سلوک سے تنگ آکر وہ پہاڑی علاقوں میں کھیتوں پر غیر قانونی طور پر کام کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ان علاقوں میں مقامی زمیندار فصلوں کی کٹائی کے لیے غیر قانونی تارکین وطن پر انحصار کرتے ہیں اور پولیس کو بھی اس کی خبر ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی استحصال کا خطرہ موجود رہتا ہے اور کئی بار فصل کٹنے کے بعد انہیں تنخواہ دیے بغیر ملک بدری کی دھمکی دے کر بھگا دیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت بروکر سسٹم میں شفافیت لا کر مزدوروں کے حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتی، تارکین وطن کا استحصال اور ان کا قانونی دائرے سے فرار ہو کر غیر محفوظ زندگی گزارنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں