ملائیشیا کا انتباہ: ٹرمپ کے ممکنہ محصولات کے پیش نظر تجارت کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے
کوالالمپور: ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے محصولات کی دھمکیوں کے پس منظر میں عالمی تجارت کو کمزور ممالک کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ آسیان اجلاس کے لیے جمع ہیں۔
بدھ کو آسیان وزرائے خارجہ کے سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انور ابراہیم نے کہا کہ اگرچہ طاقت نے ہمیشہ تجارت پر اثر ڈالا ہے، لیکن آج یہ تیزی سے اس کی سمت کا تعین کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا، “پوری دنیا میں، جو اوزار کبھی ترقی کے لیے استعمال ہوتے تھے، آج انہیں دباؤ ڈالنے, الگ تھلگ کرنے اور روکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ محصولات، برآمدی پابندیاں اور سرمایہ کاری کی رکاوٹیں اب جغرافیائی سیاسی مخاصمت کے تیز دھار آلات بن چکے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “یہ کوئی گزرتا ہوا طوفان نہیں، بلکہ ہمارے وقت کا نیا موسم ہے۔”
انور ابراہیم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اپنے پہلے ایشیائی دورے پر ملائیشیا پہنچ رہے ہیں۔ امریکی حکام اس دورے کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں “آزاد، کھلے اور محفوظ” ایشیا پیسیفک کے لیے واشنگٹن کے عزم پر زور دینے کا موقع قرار دے رہے ہیں، تاہم علاقائی حکام کے ساتھ ان کی بات چیت کا زیادہ تر محور تجارت پر مرکوز رہنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ ملائیشیا ان چھ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں شامل ہے جنہیں یکم اگست کی ڈیڈ لائن تک ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تجارتی معاہدے نہ کرنے پر بھاری محصولات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ کے تازہ ترین منصوبے کے تحت، 14 ممالک کی برآمدات پر 25 سے 40 فیصد تک ڈیوٹی عائد کی جائے گی، جن میں آسیان کے رکن ممالک ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا اور میانمار شامل ہیں۔ اب تک ویتنام واحد آسیان ملک ہے جس نے ٹرمپ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا ہے۔
انور ابراہیم نے خطے کے ممالک پر زور دیا کہ وہ “وضاحت اور یقین” کے ساتھ عالمی منظر نامے کی حقیقت کا سامنا کریں اور خارجہ و اقتصادی پالیسی پر مزید قریبی رابطہ کاری کریں۔ انہوں نے کہا، “بیرونی دباؤ سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی داخلی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمیں آپس میں زیادہ تجارت کرنی چاہیے، ایک دوسرے میں زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور عزم کے ساتھ تمام شعبوں میں انضمام کو آگے بڑھانا چاہیے۔”
ملائیشی وزیراعظم نے اس خیال کو مسترد کرنے پر بھی زور دیا کہ دنیا کو اثر و رسوخ کے دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یا خطے کو متاثر کرنے والے فیصلے کہیں اور کیے جا سکتے ہیں۔