سربیا میں ’بلڈوزر انقلاب‘ کا بھوت لوٹ آیا؟ حکومت اور مظاہرین آمنے سامنے، آگے کیا ہوگا؟

بلغراد: سربیا میں گزشتہ ہفتے کے آخر میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، جو ملک میں وسیع پیمانے پر پھیلی بدعنوانی اور جمہوری آزادیوں پر قدغن کے خلاف جاری احتجاجی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔

صدر الیگزینڈر ووچچ کے خلاف تقریباً آٹھ ماہ سے جاری مسلسل احتجاج کے بعد مظاہرین نے حکومت کو ‘غیر قانونی’ قرار دے دیا ہے اور دارالحکومت بلغراد میں پولیس کے ساتھ ان کی شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اتوار کو پولیس نے بتایا کہ 48 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 22 مظاہرین کو طبی امداد کی ضرورت پڑی۔ وزیر داخلہ ایویتسا داچچ کے مطابق 77 زیر حراست افراد میں سے 38 اب بھی تحویل میں ہیں، جن میں سے بیشتر کو مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔

صدر ووچچ نے مظاہرین پر تشدد پر اکسانے اور پولیس پر حملہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ‘دہشت گرد’ قرار دیا جنہوں نے ‘ریاست کو گرانے کی کوشش کی’۔ ناقدین ان پر 2014 میں وزیر اعظم اور پھر 2017 سے صدر بننے کے بعد سے بڑھتی ہوئی آمریت کا الزام عائد کرتے ہیں۔

**مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟**

حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز نومبر میں شمالی شہر نووی ساد میں ایک ریلوے اسٹیشن کی تزئین و آرائش شدہ چھت گرنے سے ہوا تھا، جس میں 16 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سربیا میں بہت سے لوگوں نے اس سانحے کا ذمہ دار ریاستی انفراسٹرکچر منصوبوں میں کرپشن پر مبنی غفلت کو ٹھہرایا۔

اس سانحے کے بعد طلباء کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے مطالبات 2027 میں ہونے والے باقاعدہ انتخابات کے بجائے فوری انتخابات کے انعقاد پر مرکوز ہیں۔ مظاہرین نے صدر ووچچ کو نئے انتخابات کا اعلان کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا، جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔

مظاہرین اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے اصلاحات کی جائیں، جن میں ووٹر ریکارڈ کا جائزہ، سیاسی زندگی میں تمام شرکاء کے لیے میڈیا تک مساوی رسائی اور ووٹ خریدنے سے روکنے کے اقدامات شامل ہیں۔ دیگر مطالبات میں تعلیمی نظام میں اصلاحات، طلباء تنظیموں کو قانونی حیثیت دینا، تعلیمی شعبے کے کارکنوں کے لیے منصفانہ اجرت کو یقینی بنانا، اور یونیورسٹیوں کی خود مختاری کا احترام شامل ہیں۔

**کیا سربیا کے مظاہرین نے پہلے بھی حکومت بدلی ہے؟**

جی ہاں۔ سربیا کے عوام نے 25 سال قبل اسلوبودان میلوشووچ کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، جسے ‘بلڈوزر انقلاب’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ عوامی بغاوت 24 ستمبر 2000 کو صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہوئی جس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں۔ 5 اکتوبر کو مظاہروں کا اختتام اس وقت ہوا جب ایک بلڈوزر نے سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت پر دھاوا بول دیا، جسے حکومت کی پروپیگنڈا مشین کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

میلوشووچ دو دن بعد مستعفی ہو گئے۔ 2000 کا انقلاب قوم کی یادداشت میں نقش ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں صدر ووچچ کا سکیورٹی اداروں پر کنٹرول میلوشووچ سے زیادہ مضبوط ہے اور موجودہ تحریک کو 2000 کی طرح بیرونی حمایت بھی حاصل نہیں۔

**آگے کیا ہوگا؟**

طلباء کی زیرقیادت احتجاجی تحریک نے پیچھے نہ ہٹنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ دوسری جانب صدر ووچچ نے مزید گرفتاریوں کا عندیہ دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گرفتاریاں تحریک کو عارضی طور پر سست کر سکتی ہیں، لیکن ملک گیر احتجاج کو ختم کرنے کا امکان نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مظاہرین ‘بالآخر کامیاب ہوں گے’، لیکن ‘کس قیمت پر، یہ ابھی معلوم نہیں’۔

اپنا تبصرہ لکھیں