مصنوعی ذہانت کا تاریک پہلو: انسانی ذہن پر خوفناک اثرات، ماہرین نفسیات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کی ایک حالیہ تحقیق نے مصنوعی ذہانت (AI) کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ تحقیق میں جب مقبول ترین اے آئی ٹولز جیسے اوپن اے آئی اور کریکٹر اے آئی کو تھراپی کے لیے آزمایا گیا تو نتائج چونکا دینے والے تھے۔

تحقیق میں جب محققین نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے شخص کی نقالی کی تو ان اے آئی ٹولز نے نہ صرف اس کی مدد کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا بلکہ لاشعوری طور پر اس شخص کو اپنی موت کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ اسٹینفورڈ گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن کے اسسٹنٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے سینئر مصنف نکولس ہیبر کا کہنا ہے کہ “اے آئی سسٹمز کو ساتھی، مشیر، کوچ اور یہاں تک کہ تھراپسٹ کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔”

مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں میں تیزی سے سرایت کرتی جا رہی ہے اور کینسر سے لے کر موسمیاتی تبدیلی جیسے وسیع شعبوں میں سائنسی تحقیق کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے، ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انسانی ذہن پر کیسے اثر انداز ہوگی۔ چونکہ یہ ایک نیا رجحان ہے، اس لیے سائنسدانوں کے پاس اس کے نفسیاتی اثرات کا مکمل مطالعہ کرنے کے لیے کافی وقت نہیں ملا، تاہم ماہرینِ نفسیات نے اس کے ممکنہ اثرات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس کی ایک تشویشناک مثال مقبول کمیونٹی نیٹ ورک ‘ریڈٹ’ پر دیکھی گئی، جہاں اے آئی پر مبنی ایک سب ریڈٹ (کمیونٹی) سے کچھ صارفین پر اس لیے پابندی لگا دی گئی کیونکہ وہ یہ ماننے لگے تھے کہ اے آئی خدا کی طرح ہے یا انہیں خدا جیسی طاقتیں دے رہا ہے۔

اسٹینڈفورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر جوہانس آئیکسٹڈ کا کہنا ہے کہ “ایسا لگتا ہے کہ ذہنی بیماری یا شیزوفرینیا سے وابستہ علمی کمزوریوں یا وہم کے شکار افراد بڑے لینگویج ماڈلز (LLMs) سے بات چیت کر رہے ہیں۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ چونکہ یہ اے آئی ٹولز صارف سے اتفاق کرنے کے لیے پروگرام کیے گئے ہیں، اس لیے وہ ذہنی مریضوں کے غلط خیالات کی تصدیق کر کے ان کی حالت کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔

اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے سماجی ماہر نفسیات ریگن گرونگ کہتے ہیں، “یہ ایسے خیالات کو ہوا دے سکتا ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ اے آئی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ انسانی گفتگو کی نقل کرتے ہوئے لوگوں کو وہی جوابات دیتا ہے جو پروگرام کے مطابق اگلے ہونے چاہئیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں یہ مسئلہ بن جاتا ہے۔”

سوشل میڈیا کی طرح، اے آئی بھی پریشانی یا ڈپریشن جیسی عام ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا لوگوں کے لیے معاملات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

**مزید تحقیق کی ضرورت**

اے آئی کے سیکھنے یا یادداشت پر پڑنے والے اثرات کا بھی مسئلہ ہے۔ جو طالب علم ہر اسکول کا کام اے آئی سے کرواتا ہے وہ اتنا نہیں سیکھ پائے گا۔ یہاں تک کہ اے آئی کا معمولی استعمال بھی معلومات کو یاد رکھنے کی صلاحیت کو کم کر سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں تعلیم کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اسٹیفن ایگیولر کہتے ہیں، “ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ لوگ علمی طور پر سست ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ کوئی سوال پوچھتے ہیں اور جواب مل جاتا ہے، تو آپ کا اگلا قدم اس جواب کی چھان بین کرنا ہونا چاہیے، لیکن یہ اضافی قدم اکثر نہیں اٹھایا جاتا، جس سے تنقیدی سوچ کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔”

اس کی مثال گوگل میپس سے دی جا سکتی ہے، جس کے استعمال نے بہت سے لوگوں کی راستے یاد رکھنے اور اپنی سمت سے آگاہی کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان خدشات سے نمٹنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ آئیکسٹڈ نے کہا کہ ماہرینِ نفسیات کو ابھی سے اس قسم کی تحقیق شروع کر دینی چاہیے، اس سے پہلے کہ اے آئی غیر متوقع طریقوں سے نقصان پہنچانا شروع کر دے، تاکہ لوگ تیار رہیں اور پیدا ہونے والے ہر خدشے سے نمٹ سکیں۔

ایگیولر نے مزید کہا، “ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اور ہر کسی کو اس بات کی بنیادی سمجھ ہونی چاہیے کہ بڑے لینگویج ماڈلز کیا ہیں۔”

اپنا تبصرہ لکھیں