امریکی خواب کا ڈراؤنا انجام: ہزاروں میل کا سفر، سرحد پر پابندی، اور پھر خالی ہاتھ واپسی!

نیکوکلی، کولمبیا – ساحلی قصبے نیکوکلی میں ایک سفید کشتی کنارے پر آ لگی۔ دور سے یہ بالکل ان سیاحتی کشتیوں جیسی ہی تھی جو کولمبیا کے خوبصورت کیریبین ساحل پر چلتی ہیں، لیکن جیسے ہی مسافر اترے، نہ کوئی تصویریں کھینچی گئیں اور نہ ہی کسی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

ان میں وینزویلا سے تعلق رکھنے والا 21 سالہ لوئس اینجل یاگوا پارا بھی تھا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ اس بندرگاہ سے گزرا تھا۔ امریکہ پہنچنے کے لیے شمال کی جانب اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے اس نے کہا، “میں سرحد پر پہنچا، لیکن میں پار نہیں کر سکا، اس لیے میں واپس آ گیا۔”

یاگوا پارا اور کشتی میں سوار 50 سے زائد دیگر مسافروں نے اس راستے پر واپسی کا سفر کیا ہے جو کبھی دنیا کے خطرناک ترین ہجرت کے راستوں میں سے ایک تھا۔ برسوں سے، تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی بہتر مستقبل کی تلاش میں جنوبی امریکہ سے امریکہ کا سفر کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب، امریکہ میں امیگریشن پر سخت کریک ڈاؤن کے بعد، ایک الٹا رجحان سامنے آ رہا ہے: تارکین وطن امریکی سرحد سے پیچھے ہٹ کر کہیں اور نیا گھر تلاش کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کے مطابق 3 لاکھ سے زائد افراد نے جنوب سے شمال کا سفر کیا تھا، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ کے حصول کو تقریباً ناممکن بنا دینے کے بعد یہ سلسلہ تقریباً رک گیا ہے۔ اس سال جنوری سے مارچ کے درمیان صرف 2,831 افراد نے یہ خطرناک سفر کیا، جو 2024 کی اسی مدت کے مقابلے میں 98 فیصد کم ہے۔

یاگوا پارا نے خود یہ کٹھن سفر طے کیا تھا۔ اس نے بتایا، ”راستہ بہت مشکل تھا۔ بہت کچھ ہوا — اغوا، سب کچھ۔ وہاں لوگ بھوکے ہیں۔ بہت مشکل ہے۔ بری چیزیں ہوتی ہیں۔“ لیکن جب وہ امریکی سرحد پر پہنچا تو اسے بھی ان ہزاروں لوگوں کی طرح داخلے کی اجازت نہ ملی جو صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پناہ کی درخواستوں کے لیے استعمال ہونے والی آن لائن ایپ ’سی بی پی ون‘ منسوخ کر دی اور بغیر دستاویزات سرحد عبور کرنے والوں پر پناہ کی درخواست دینے پر پابندی لگا دی۔

اس صورتحال کی وجہ سے روزانہ تقریباً 100 لوگ پاناما سے جنوب کی طرف نیکوکلی پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی میکسیکو تک پہنچ کر واپس آئے، لیکن کچھ تو امریکہ پہنچنے کے بعد بھی مخالفانہ سیاسی ماحول کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

گودی کے قریب کھڑے ایک 31 سالہ وینزویلا کے نوجوان باپ نے اپنی نو ماہ کی بیٹی کو سینے سے لگایا ہوا تھا، جو امریکی ریاست کولوراڈو میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے اور اس کی بیوی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں اور ”بڑے پیمانے پر ملک بدری“ کی مہم سے وہ ڈر گئے تھے کہ ان کا خاندان بکھر جائے گا۔ بچی کی 29 سالہ ماں نے کہا، ”ہمیں اپنے بچے کے ساتھ امریکہ چھوڑنا پڑا۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ہمیں نکال دیں گے۔ میں نے بچوں کو والدین سے جدا کرنے کی بہت سی کہانیاں سنیں۔ میں نے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنا بہتر سمجھا۔“

جو لوگ اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں وہ بسوں میں سوار ہو جاتے ہیں، جبکہ کچھ فنڈز کی کمی کی وجہ سے نیکوکلی میں ہی رہ جاتے ہیں۔ 57 سالہ پادری ہوزے لوئس بلیسٹا مینڈوزا ان لوگوں کے لیے ایک کھانے کا ہال چلاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ”شمال کی طرف جانے والی ہجرت اب بدل گئی ہے۔ وہ واپس آ رہے ہیں۔ ہم روزانہ تقریباً 120 سے 130 لوگوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔“

ایک 36 سالہ وینزویلا کے شخص نے، جس نے میکسیکو پہنچنے کے لیے 1500 ڈالر فی کس خرچ کیے تھے، کہا، ”ہم اسی جگہ واپس جا رہے ہیں جہاں سے نکلنے کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ بیچ دیا تھا۔ ہم خالی ہاتھ، صفر سے شروع کرنے کے لیے واپس آ رہے ہیں۔“

اس قصبے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد بھی نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے کیونکہ امریکی امداد میں کمی اور شمال کی طرف ہجرت میں کمی کے تاثر کی وجہ سے زیادہ تر غیر سرکاری تنظیمیں بند ہو گئی ہیں۔

اس صورتحال کا سب سے زیادہ شکار 47 سالہ مارسیلا بیلورین اور 48 سالہ یرال بینیگاس جیسے خاندان ہیں، جو چھ ماہ سے اپنے دو بچوں کے ساتھ نیکوکلی میں بے گھر ہیں۔ وہ ایک زیرِ تعمیر عمارت کے نیچے رہتے ہیں۔ بیلورین نے کہا، ”ہم نام نہاد امریکی خواب کا پیچھا کرتے ہوئے آئے تھے۔“ لیکن اب یہ خاندان چلی جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ یرال نے کہا، ”اگر انہوں نے ہمیں واپس ہی بھیجنا ہے، تو بہتر ہے کہ ہم کہیں اور چلے جائیں۔“

اپنا تبصرہ لکھیں