یورپ آگ کی بھٹی بن گیا: شدید گرمی کی لہر جان لیوا ثابت، 8 ہلاک، جنگلات میں آگ اور طوفانوں کا خطرہ

یورپ بھر میں موسم گرما کے آغاز پر ہی شدید گرمی کی لہر نے تباہی مچا دی ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جبکہ کئی ممالک میں ہیلتھ الرٹس، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات اور سوئٹزرلینڈ میں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کو بھی بند کرنا پڑا ہے۔

اسپین کے کاتالونیا کے علاقے میں حکام نے بتایا کہ صوبہ للیڈا میں تقریباً ایک ہی وقت میں دو مقامات پر جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی جس کے باعث 14,000 افراد کو گھروں کے اندر رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فائر اینڈ ایمرجنسی سروس نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ کوسکو شہر کے قریب لگنے والی آگ میں فائر فائٹرز کو دو افراد کی لاشیں ملیں۔ آگ لگنے کی اصل وجہ واضح نہیں ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ گرمی، خشک موسم اور تیز ہواؤں نے شعلوں کی شدت میں اضافہ کیا۔ اسپین میں مزید دو افراد ایکسٹریماڈورا اور کورڈوبا میں گرمی کی لہر کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ ملک بھر میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر رہا ہے۔

فرانس میں بھی 2003 کے بعد جون کا مہینہ سب سے گرم ترین رہا۔ وزیر توانائی نے بدھ کے روز گرمی سے متعلق دو ہلاکتوں کی اطلاع دی جبکہ 300 دیگر افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا۔ موسمیات کے ادارے میٹیو فرانس نے کہا ہے کہ وسطی فرانس کے کئی علاقوں کے لیے ریڈ الرٹس برقرار ہیں، جبکہ وزیر صحت نے حکام کو چوکس رہنے کی ہدایت کی ہے۔

اٹلی کی نیوز ایجنسی اے این ایس اے (ANSA) کے مطابق، سارڈینیا کے ساحلوں پر 60 سال سے زائد عمر کے دو افراد گرمی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ جرمنی میں بھی بدھ کو سال کا گرم ترین دن رہنے کی پیش گوئی کی گئی، جہاں کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ مشرقی ریاستوں برانڈنبرگ اور سیکسنی میں فائر بریگیڈ کے عملے نے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔

اٹلی، فرانس اور جرمنی نے غیر مستحکم ماحول میں حد سے زیادہ گرمی کے باعث شدید طوفانوں کے خطرے سے بھی خبردار کیا ہے۔ پیر کی رات فرانسیسی الپس میں شدید طوفانوں نے مٹی کے تودے گرنے کا سبب بنے، جس سے پیرس اور میلان کے درمیان ریل ٹریفک متاثر ہوئی۔

سوئس یوٹیلیٹی کمپنی اکسپو نے دریا کے پانی کے بلند درجہ حرارت کی وجہ سے منگل کو بیزناو نیوکلیئر پاور پلانٹ کا ایک ری ایکٹر بند کر دیا اور دوسرے کی پیداوار نصف کر دی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سال گرمی کی لہریں معمول سے پہلے آ گئی ہیں، جس سے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوسل فیول جلانے سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں موسمیاتی تبدیلی کا سبب ہیں، جبکہ جنگلات کی کٹائی اور صنعتی سرگرمیاں دیگر عوامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا، ”شدید گرمی ہماری لچک کو آزما رہی ہے اور لاکھوں لوگوں کی صحت اور زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔“

اپنا تبصرہ لکھیں