امریکی سپریم کورٹ نے عدالتوں کے ملک گیر حکم امتناع جاری کرنے کے اختیارات محدود کردیے
یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، جس نے اپنی پالیسیوں کے خلاف حکم امتناع کی مذمت کی تھی۔
واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ نچلی عدالتوں نے صدارتی اقدامات کے خلاف ملک گیر حکم امتناع جاری کرکے ممکنہ طور پر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، جس سے انتظامی اختیارات کو روکنے کی عدالتی شاخ کی صلاحیت محدود ہوگئی ہے۔
جمعہ کو یہ فیصلہ واشنگٹن، میری لینڈ اور میساچوسٹس کی وفاقی عدالتوں کے ان حکم امتناع کے جواب میں آیا جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیدائشی شہریت کے حق کو محدود کرنے کی صلاحیت کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
عدالت کی اکثریت نے اپنے فیصلے میں کہا، “ملک گیر حکم امتناع ممکنہ طور پر اس مساویانہ اختیار سے تجاوز کرتے ہیں جو کانگریس نے وفاقی عدالتوں کو دیا ہے۔ عدالت حکومت کی درخواستوں کو حکم امتناع پر جزوی روک کے لیے منظور کرتی ہے۔”
تاہم، اکثریت نے مزید کہا کہ اس کا فیصلہ “صرف اس حد تک لاگو ہوتا ہے کہ حکم امتناع ضرورت سے زیادہ وسیع ہیں”۔ عدالت نے تجویز دی کہ حکم امتناع اب بھی زیر بحث مقدمات کے مدعیان پر لاگو ہوسکتے ہیں۔
اس فیصلے نے ایک بار پھر عدالت کو پارٹی خطوط پر تقسیم کردیا، جس میں چھ قدامت پسند ججوں نے اکثریت تشکیل دی اور تین لبرل ججوں نے اختلافی نوٹ جاری کیا۔ عدالت کی نئی جج اور ٹرمپ کی نامزد کردہ ایمی کونی بیریٹ نے اکثریت کا فیصلہ تحریر کیا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، جس نے “عدالتی تجاوز” کو اپنی پالیسیوں کی راہ میں ایک غیر آئینی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ اس کے دیگر مقدمات پر بھی وسیع اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے جہاں ٹرمپ کے ایجنڈے کو نچلی عدالتوں کے حکم امتناع نے روک دیا ہے۔
اٹارنی جنرل پام بونڈی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کہا، “آج، سپریم کورٹ نے ضلعی عدالتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے خلاف ملک گیر حکم امتناع کے لامتناہی سلسلے کو روکیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے بعد محکمہ انصاف صدر کی پالیسیوں اور “ان پر عمل درآمد کے ان کے اختیار” کا بھرپور دفاع جاری رکھے گا۔
یہ کیس سپریم کورٹ تک کیسے پہنچا؟
نچلی عدالتوں نے ٹرمپ کی پیدائشی شہریت کی ازسرنو تعریف کرنے کی کوششوں کی سخت مخالفت کی تھی، یہ حق امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت قائم کیا گیا تھا، جسے امریکی خانہ جنگی کے بعد اپنایا گیا تھا۔
ترمیم میں اعلان کیا گیا تھا کہ امریکہ میں “پیدا ہونے والے تمام افراد” اور “اس کے دائرہ اختیار کے تابع” شہری ہوں گے۔ عدالتوں نے بارہا اس متن کی تشریح کرتے ہوئے امریکہ میں پیدا ہونے والے تقریباً تمام لوگوں کو شہریت دی ہے، چاہے ان کے والدین کی قومیت کچھ بھی ہو۔ اس میں محدود استثنیٰ بھی شامل تھے، جیسے سفارت کاروں کے بچے۔
لیکن اپنی 2024 کی دوبارہ انتخابی مہم میں، ٹرمپ نے ایک ایسے پلیٹ فارم پر مہم چلائی تھی جس میں چودھویں ترمیم کی ازسرنو تشریح کرکے غیر دستاویزی تارکین وطن کے بچوں کو خارج کیا جائے گا۔ ان کے پلیٹ فارم کے مطابق، “نئی پالیسی یہ واضح کرے گی کہ مستقبل میں، غیر قانونی تارکین کے بچوں کو خودکار شہریت نہیں دی جائے گی۔”
اپنی دوسری مدت کے پہلے دن، 20 جنوری کو، انہوں نے اس انتخابی وعدے پر عمل کرتے ہوئے “امریکی شہریت کے معنی اور قدر کا تحفظ” نامی ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے۔
لیکن امیگریشن کے حامیوں نے کہا کہ ٹرمپ کی پالیسی آئین کی خلاف ورزی کرتی ہے، اور نچلی عدالتوں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے ملک گیر حکم امتناع جاری کیے جس نے ایگزیکٹو آرڈر کو نافذ ہونے سے روک دیا تھا۔