پاکستان نے جمعے کو سندھ طاس معاہدے (IWT) کیس میں عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے جاری کردہ اضافی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے فریم ورک کے تحت اس مسئلے کو حل کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان نئے سرے سے سفارتی روابط کی ضرورت پر زور دیا۔
ثالثی عدالت کے فیصلے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات سندھ طاس معاہدے کے تحت ہونے والی کارروائی میں نہ تو ثالثی عدالت اور نہ ہی غیر جانبدار ماہر کے دائرہ اختیار کو کم کر سکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ”عدالت نے حالیہ پیش رفت کی روشنی میں اپنے دائرہ اختیار کی توثیق کی ہے اور یہ کہ بھارت کا یکطرفہ اقدام نہ تو عدالت اور نہ ہی غیر جانبدار ماہر کو ان کے سامنے موجود مسائل پر فیصلہ سنانے کی اہلیت سے محروم کر سکتا ہے۔“
بیان میں مزید کہا گیا کہ ”اس وقت سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان سندھ طاس معاہدے کے اطلاق سمیت بامعنی مذاکرات کی طرف واپس آنے کا راستہ تلاش کریں۔“
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی 24 جون کو اپنے بیان میں نئی دہلی کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان جموں و کشمیر، پانی، تجارت اور دہشتگردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔“
عدالتی فیصلہ:
ثالثی عدالت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے خلاف پاکستان کی جانب سے شروع کی گئی ثالثی میں اپنے دائرہ اختیار کی توثیق کرتے ہوئے ایک اضافی فیصلہ جاری کیا ہے۔
اس فیصلے میں حالیہ پیش رفت، بشمول اپریل 2025 میں بھارت کے اس اعلان کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ معاہدے کو ”معطل“ رکھا جائے گا۔
27 جون 2025 کو سنایا گیا متفقہ فیصلہ، جو دونوں فریقوں پر بغیر کسی اپیل کے لاگو ہوتا ہے، اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت کا معاہدے کو معطل رکھنے کا یکطرفہ فیصلہ عدالت کی اس معاملے پر فیصلہ سنانے کی اہلیت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی کارروائی باضابطہ طور پر ہیگ میں قائم عالمی ثالثی عدالت میں 19 اگست 2016 کو پاکستان کی جانب سے عدالت کے قیام کی درخواست کے بعد شروع ہوئی تھی۔
یہ قانونی کارروائی سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل IX کے تحت شروع کی گئی تھی، جو پانی سے متعلق مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔