اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں—پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ—کی مجموعی طور پر 77 مخصوص نشستیں بحال کر دی ہیں۔
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کی 22 نشستیں بحال ہوئی ہیں جن میں 19 خواتین اور 7 اقلیتوں کی نشستیں شامل ہیں۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کی 27 نشستیں بحال ہوئیں، جن میں 24 خواتین اور 3 اقلیتوں کے لیے ہیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں 25 نشستیں بحال کی گئی ہیں، جن میں 21 خواتین اور 4 اقلیتوں کے لیے ہیں، جبکہ سندھ اسمبلی میں 3 نشستیں بحال ہوئیں، جن میں 2 خواتین اور 1 اقلیت کی نشست ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان مخصوص نشستوں پر اپنا دعویٰ کھو بیٹھی ہے، اور توقع ہے کہ یہ نشستیں حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو ملیں گی، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) شامل ہیں۔
فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نظرثانی شدہ نشستوں کی تقسیم کا نیا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔
**مخصوص نشستوں کا پس منظر**
مخصوص نشستوں کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 80 سے زائد آزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور بعد ازاں اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر دعویٰ کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) میں شامل ہو گئے۔
ایس آئی سی نے 21 فروری کو مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، تاہم انتخابی ادارے نے 4 مارچ کو 4-1 کے اکثریتی فیصلے میں امیدواروں کی فہرست جمع نہ کرانے کی بنیاد پر ایس آئی سی کو نشستیں دینے سے انکار کر دیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ایس آئی سی نے 6 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، جس نے 14 مارچ کو انتخابی ادارے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ بعد ازاں، 2 اپریل کو سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور اسمبلیوں میں خواتین کی 67 اور اقلیتوں کی 11 نشستیں مختص کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 6 جون کو اس معاملے پر سماعت کی اور پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا تھا، جس کے بعد حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں اپنی دو تہائی اکثریت کھو بیٹھا تھا۔
بعد ازاں 31 مئی کو 13 رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا جس نے اس اہم معاملے پر کل 9 سماعتیں کیں۔ وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ (ن) نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں صرف ان جماعتوں کو مل سکتی ہیں جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہو اور کم از کم ایک نشست جیتی ہو، نیز قانون کے مطابق امیدواروں کی فہرست فراہم کی ہو۔