واشنگٹن: امریکی حکومت نے ہیٹی سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے لیے خصوصی تحفظات ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس سے تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار افراد کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (ڈی ایچ ایس) نے کہا کہ 2 ستمبر سے ہیٹی کے شہری عارضی تحفظ کے اسٹیٹس (ٹی پی ایس) کے تحت ملک میں مزید نہیں رہ سکیں گے۔
ٹی پی ایس ان ممالک کے شہریوں کو امریکا میں عارضی طور پر رہنے کی اجازت دیتا ہے جو تنازعات، قدرتی آفات یا دیگر غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ اس اسٹیٹس کے تحت انہیں کام کرنے اور سفر کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔
تاہم، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت، امریکا میں امیگریشن کو محدود کرنے کی وسیع تر کوششوں کے تحت ٹی پی ایس جیسے عارضی تحفظات کو کم کیا جا رہا ہے۔
ڈی ایچ ایس کے ایک ترجمان نے بیان میں کہا، “یہ فیصلہ ہمارے امیگریشن سسٹم میں سالمیت کو بحال کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عارضی حفاظتی حیثیت واقعی عارضی ہے۔”
ہیٹی کو پہلی بار 2010 میں ٹی پی ایس کا درجہ دیا گیا تھا، جب ایک تباہ کن زلزلے نے 2 لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لے لی تھی اور 15 لاکھ کو بے گھر کر دیا تھا۔ حالیہ برسوں میں گینگ تشدد اور سیاسی عدم استحکام کے باعث اس حیثیت میں توسیع کی جاتی رہی ہے۔
آج ہیٹی ایک سنگین انسانی بحران کا شکار ہے، جہاں گزشتہ سال گینگز کے ہاتھوں 5,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور 1.3 ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔ مسلح گروہ اب دارالحکومت کے 90 فیصد حصے پر قابض ہیں، اور خوراک، پانی اور طبی خدمات کی شدید قلت ہے۔
اس صورتحال کے برعکس، ڈی ایچ ایس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوئم نے “یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مجموعی طور پر ملکی حالات اس قدر بہتر ہو چکے ہیں کہ ہیٹی کے شہری بحفاظت وطن واپس جا سکتے ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہیٹی کے شہریوں کو عارضی طور پر امریکا میں رہنے کی اجازت دینا امریکا کے قومی مفاد کے خلاف ہے۔
یہ اقدام صرف ہیٹی کے شہریوں تک محدود نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے وینزویلا، کیوبا، نکاراگوا، کیمرون اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں تارکین وطن کے لیے بھی اسی طرح کے تحفظات ختم کرنے کے اقدامات کیے ہیں، حالانکہ ان ممالک میں بھی شدید عدم استحکام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔