برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ تو کیا گیا، لیکن اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا، جس نے بلاک کے اندر گہرے اختلافات کو بے نقاب کر دیا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اجلاس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واضح شواہد کے باوجود یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدے پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ رکن ممالک صرف جنگ بندی کے مطالبے پر متفق ہوسکے، تاہم اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی نے پوری جنگ کے دوران دیگر رکن ممالک کی ناراضگی کے باوجود اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کئی دیگر یورپی ممالک اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کے حق میں ہیں لیکن جرمنی کی مخالفت کے باعث کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔
اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہرین نے یورپی یونین کے مؤقف کے پیچھے کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے نمائندے کلاڈیو فرانکویلا نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر کارروائی نہ کرنے کو مایوس کن قرار دیا۔ یورپی پارلیمنٹ کی فلسطین سے تعلقات کے لیے قائم ڈیلیگیشن کی سربراہ لِن بوائلن نے یونین کے اندر سیاسی تقسیم پر تنقید کی، جبکہ بی ڈی ایس (بائیکاٹ، ڈائیوسٹمنٹ اور سینکشنز) مہم کی کوآرڈینیٹر جیورجیا گسکیلیو نے اسرائیل کے خلاف اقتصادی دباؤ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
یورپی یونین کی یہ ناکامی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو اسے غزہ کے معاملے پر اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اور متحد مؤقف اپنانے سے روک رہے ہیں، اور اس تقسیم کے عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔