سوات/پشاور: دریائے سوات میں پیش آنے والے المناک واقعے میں جاں بحق افراد کی تعداد ہفتے کے روز 11 تک پہنچ گئی، جب ریسکیو ٹیموں نے ایک اور بچے کی لاش نکال لی۔
ریسکیو 1122 کے مطابق، دو لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن اب بھی جاری ہے۔ گزشتہ روز ابتدائی کارروائی کے دوران چار افراد کو بچا لیا گیا تھا۔
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 17 افراد سوات میں دریا کنارے پکنک منا رہے تھے کہ اچانک پانی کے بہاؤ میں تیزی آنے سے بہہ گئے۔
ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 کے مطابق، سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن 24 گھنٹے سے زائد وقت سے جاری ہے اور اسے خوازہ خیلہ، کبل بائی پاس اور بریکوٹ میں بیک وقت کیا جا رہا ہے۔ اس مشن میں 120 سے زائد ریسکیو اہلکار حصہ لے رہے ہیں، جبکہ سوات، مالاکنڈ اور شانگلہ کی ٹیمیں کشتیوں اور جدید آلات کی مدد سے دریا کے کناروں اور گہرے پانی میں تلاش کا کام کر رہی ہیں۔
دوسری جانب، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے ترجمان فراز احمد مغل نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی نے دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن کی منظوری دے دی ہے۔ ترجمان کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے متعلقہ محکموں کو تین دن کے اندر تمام غیر قانونی تعمیرات مسمار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس افسوسناک واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کو بروقت اقدامات نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔
صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر قیادت نے بھی اس واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
قومی موسمیاتی سروس نے خبردار کیا ہے کہ منگل تک شدید بارشوں اور ممکنہ سیلابی ریلوں کا خطرہ برقرار رہے گا۔