لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے سانحہ سوات کے متاثرین کی میتیں مبینہ طور پر کچرا اٹھانے والے ڈمپر میں منتقل کرنے پر خیبرپختونخوا حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے اس اقدام کو ‘انتہائی غیر انسانی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دریائے سوات میں بہہ کر جاں بحق ہونے والے سیالکوٹ کے سیاحوں کو نہ صرف بروقت امداد نہ مل سکی بلکہ مرنے کے بعد بھی ان کی تذلیل کی گئی۔
عظمیٰ بخاری نے کہا، ‘سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ ریسکیو اہلکار ان تک وقت پر نہیں پہنچ سکے، اور جب لاشیں ملیں تو انہیں پنجاب لانے کے لیے کچرا اٹھانے والا ڈمپر استعمال کیا گیا۔ اگر آپ انہیں بچا نہیں سکے تو کم از کم عزت کے ساتھ تو گھر پہنچا دیتے۔ ان کا کیا قصور تھا؟’
انہوں نے سوال اٹھایا کہ سانحے کے وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کہاں تھے؟ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ تو ‘اڈیالہ جیل کے باہر ایک بادشاہ کی خدمت’ میں مصروف تھے۔
دوسری جانب سانحہ سوات میں جاں بحق افراد کی تعداد 11 ہوگئی ہے، جبکہ 2 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ ریسکیو 1122 کے مطابق ہفتے کے روز ایک اور بچے کی لاش دریا سے نکالی گئی۔
یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 17 افراد دریائے سوات کے کنارے پکنک منا رہے تھے کہ اچانک پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ گئے۔
ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 کے مطابق لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن 24 گھنٹوں سے زائد وقت سے جاری ہے اور اس کا دائرہ خوازہ خیلہ، کبل بائی پاس اور بریکوٹ تک پھیلا دیا گیا ہے۔ اس مشن میں سوات، مالاکنڈ اور شانگلہ سے 120 سے زائد ریسکیو اہلکار کشتیوں اور جدید آلات کی مدد سے حصہ لے رہے ہیں۔