کینیڈا کے ڈیجیٹل ٹیکس پر ٹرمپ بھڑک اٹھے، تجارتی مذاکرات ختم، نئے ٹیرف کی دھمکی سے بڑی تجارتی جنگ کا خطرہ

کینیڈا کی جانب سے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نئے ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کے نفاذ کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام تجارتی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اوٹاوا سے کی جانے والی برآمدات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔

اپنی ٹروتھ سوشل پوسٹ میں ٹرمپ نے کینیڈا کے نئے ٹیکس کو “ہمارے ملک پر براہ راست اور کھلم کھلا حملہ” قرار دیا اور کہا کہ کینیڈا کے ساتھ تجارت کرنا “ایک بہت مشکل کام ہے۔”

ٹرمپ نے لکھا، “اس سنگین ٹیکس کی بنیاد پر، ہم کینیڈا کے ساتھ تجارت پر تمام مذاکرات فوری طور پر ختم کر رہے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ چند دنوں میں کینیڈا کے لیے اپنے نئے ٹیرف کا اعلان کریں گے۔ اس اقدام سے ایمیزون، میٹا، گوگل اور اوبر جیسی امریکی کمپنیوں کو تقریباً 2 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

**کینیڈا کا ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کیا ہے؟**

کینیڈا کا ڈیجیٹل سروسز ٹیکس ایکٹ (DSTA) گزشتہ سال جون میں نافذ ہوا تھا۔ اس کے تحت 820 ملین ڈالر سے زیادہ عالمی آمدنی اور 14.7 ملین ڈالر سے زیادہ کینیڈین آمدنی والی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو کینیڈا میں حاصل ہونے والی بعض ڈیجیٹل خدمات کی آمدنی پر 3 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ان خدمات میں آن لائن مارکیٹ پلیس، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل اشتہارات اور صارف کے ڈیٹا کی فروخت شامل ہیں۔

اس ٹیکس کا سب سے متنازع پہلو اس کا ماضی سے اطلاق ہے، جو یکم جنوری 2022 سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ادائیگیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔

**ٹرمپ کا شدید ردعمل**

امریکی صدر ٹرمپ نے اس ٹیکس کو امریکی کمپنیوں پر حملہ قرار دیتے ہوئے تمام تجارتی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سات دنوں کے اندر کینیڈا پر نئے ٹیرف لگائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ٹریڈ ایکٹ کے تحت سیکشن 301 کی تحقیقات کا حکم دیں گے تاکہ امریکی تجارت پر اس ٹیکس کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی اقتصادی کونسل کے ڈائریکٹر کیون ہیسیٹ نے اس ٹیکس کو “تقریباً مجرمانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “انہیں اسے ہٹانا پڑے گا۔ اور میرے خیال میں وہ یہ جانتے ہیں۔”

**کینیڈا کا ردعمل اور کاروباری برادری کی تشویش**

کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے دفتر نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ “کینیڈین حکومت کینیڈا کے کارکنوں اور کاروباری اداروں کے بہترین مفاد میں امریکہ کے ساتھ ان پیچیدہ مذاکرات میں مشغول رہے گی۔”

تاہم، کینیڈا کی کاروباری برادری نے بھی حکومت پر ڈیجیٹل ٹیکس کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے، کیونکہ انہیں امریکہ کی جانب سے جوابی کارروائی کا خدشہ ہے۔ بزنس کونسل آف کینیڈا نے ایک بیان میں کہا کہ “کینیڈا کو امریکہ سے ٹیرف کے خاتمے کے بدلے میں ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کو ختم کرنے کی فوری تجویز پیش کرنی چاہیے۔”

**عالمی تناظر اور یورپی یونین کے لیے خطرے کی گھنٹی**

کینیڈا اس طرح کا ٹیکس لگانے والا پہلا ملک نہیں ہے۔ فرانس، برطانیہ، اسپین، اٹلی اور بھارت سمیت کئی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے ڈیجیٹل ٹیکس متعارف کرا چکے ہیں، جن کی امریکہ نے ہمیشہ سخت مخالفت کی ہے۔ ان میں سے بہت سے تنازعات اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کی زیرقیادت مذاکرات کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں، جو ڈیجیٹل کمپنیوں پر منصفانہ ٹیکس لگانے کے لیے ایک عالمی معاہدے پر کام کر رہی ہے۔

امریکہ اور کینیڈا کے درمیان یہ تنازع یورپی یونین کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، جو خود بھی ایسے ہی ٹیکس لگانے پر غور کر رہا ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی یورپی یونین کو خبردار کر چکے ہیں کہ اگر اس نے امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنایا تو اسے بھی اسی طرح کے جوابی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں