یورپ اس وقت شمالی نصف کرہ میں موسم گرما کی پہلی شدید ہیٹ ویو کا سامنا کر رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے تیزی سے گرم ہوتے براعظم میں درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
اٹلی کے دارالحکومت روم میں درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی توقع ہے، جہاں سیاح اور ویٹیکن آنے والے زائرین گرمی سے بچنے کے لیے شہر کے 2,500 عوامی فواروں کا رخ کر رہے ہیں۔ اسی طرح نیپلز اور پالرمو میں درجہ حرارت 39 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے، جس کے پیش نظر لیگوریا ریجن سمیت کئی علاقوں میں دن کے گرم ترین اوقات میں کھلے مقامات پر کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
فرانس کے جنوبی ساحلی شہر مارسیل میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب پہنچنے پر حکام نے شہریوں کو گرمی سے بچانے کے لیے عوامی سوئمنگ پولز میں داخلہ مفت کر دیا ہے۔ پرتگال کے دو تہائی حصے میں اتوار کو شدید گرمی اور جنگلات میں آگ لگنے کا ہائی الرٹ جاری کیا گیا ہے، جہاں دارالحکومت لزبن میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی توقع ہے۔
اسپین، جہاں گزشتہ برسوں میں موسم گرما کی مہلک آگ نے جزیرہ نما آئبیرین کو شدید نقصان پہنچایا تھا، وہاں بھی اتوار سے ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔
یونان میں موسم گرما کی پہلی ہیٹ ویو جمعرات کو پہنچی، جب دارالحکومت ایتھنز سے صرف 40 کلومیٹر جنوب میں ایک تیز رفتار جنگل کی آگ نے چھٹیوں کے گھروں اور جنگلاتی اراضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 100 سے زائد فائر فائٹرز نے دو درجن فائر فائٹنگ طیاروں کی مدد سے اس آگ پر قابو پانے کی کوشش کی، جو تیز ہواؤں کی وجہ سے مزید بھڑک اٹھی۔
سائنسدان طویل عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں اور فوسل فیولز کے بے دریغ استعمال سے دنیا گرم ہو رہی ہے، جس کے ماحولیات پر تباہ کن نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ یورپ کے بڑھتے ہوئے گرم موسم اور شدید ہیٹ ویو اسی طویل مدتی وارمنگ کا نتیجہ ہیں۔ یورپی یونین کے کوپرنیکس کلائمیٹ مانیٹر کے مطابق، یہ ہیٹ ویو یورپ کے اب تک کے گرم ترین مارچ سمیت شدید گرمی کے ریکارڈ ٹوٹنے کے سلسلے کے بعد آئی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سیارے کے گرم ہونے کے نتیجے میں طوفان، خشک سالی، سیلاب اور ہیٹ ویو جیسے شدید موسمی واقعات زیادہ اور شدید ہوتے جا رہے ہیں۔