جنوبی افریقی حکومت میں دراڑیں، اتحادی جماعت نے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا، کیا اتحاد ٹوٹ جائے گا؟

جنوبی افریقہ کی اہم سیاسی جماعت ڈیموکریٹک الائنس (ڈی اے) نے ‘قومی مذاکرات’ کے اقدام سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے، جس سے حکومتی اتحاد میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ پارٹی کے رہنما جان اسٹین ہاؤسن نے اس اقدام کو ‘وقت اور پیسے کا ضیاع’ قرار دیا ہے۔

ہفتے کے روز ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جان اسٹین ہاؤسن نے کہا کہ حکومت میں کرپشن عروج پر ہے، جس کا الزام انہوں نے صدر سائرل رامافوسا پر عائد کیا۔ تاہم، انہوں نے فوری طور پر مخلوط حکومت سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا۔

انہوں نے کہا، ‘اگر ہم انہی لوگوں کو کابینہ میں شامل رکھیں گے جو کرپشن میں ملوث رہے ہیں تو جنوبی افریقہ میں کچھ بھی بہتر نہیں ہوگا۔’

واضح رہے کہ گزشتہ سال کے عام انتخابات میں سائرل رامافوسا کی افریقی نیشنل کانگریس (اے این سی) تین دہائیوں میں پہلی بار اپنی پارلیمانی اکثریت کھو بیٹھی تھی، جس کے بعد اسے دوسری بڑی جماعت ڈی اے کے ساتھ مل کر قومی اتحاد کی حکومت (جی این یو) بنانا پڑی تھی۔ دونوں جماعتیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛ ڈی اے مارکیٹ دوست اور دائیں بازو کی جماعت ہے جبکہ اے این سی ایک مرکزی-بائیں بازو کی جماعت ہے۔

گزشتہ ماہ صدر رامافوسا نے ملک کو درپیش اہم مسائل جیسے کہ بے روزگاری اور جرائم سے نمٹنے کے لیے ‘قومی مذاکرات’ کے نام سے ایک عمل شروع کیا تھا۔

کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب جمعرات کو صدر رامافوسا نے ڈی اے کے نائب وزیر اینڈریو وائٹ فیلڈ کو امریکہ کے غیر مجاز دورے کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ اسٹین ہاؤسن نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ فیلڈ نے دورے کے لیے تحریری درخواستیں بھیجی تھیں جنہیں نظر انداز کیا گیا۔

جان اسٹین ہاؤسن نے حکومت کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اے این سی کو 48 گھنٹوں کے اندر تھمبی سمیلانے، نوبوہلے نکابانے اور کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے دیگر اے این سی اراکین کو برطرف کرنا ہوگا، بصورت دیگر ‘تمام راستے کھلے ہیں اور نتائج کی ذمہ داری ان پر ہوگی’۔

جمعہ کو ایوان صدر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر کو برطرف کرنے کا فیصلہ وزراء کے لیے ‘قواعد و ضوابط کی واضح خلاف ورزی’ کی وجہ سے کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا، ‘یہ واضح رہے کہ صدر دھمکیوں اور الٹی میٹم کے سامنے نہیں جھکیں گے، خاص طور پر جب یہ ایگزیکٹو کے ان اراکین کی طرف سے آ رہے ہوں جنہیں وہ آئین کے مطابق مقرر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں’۔

اپنا تبصرہ لکھیں