امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ اسے جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، حالانکہ ایران ہمیشہ اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ صورتحال ایک سنگین سوال کو جنم دیتی ہے کہ دنیا میں کون سے ممالک ایٹمی ہتھیار رکھ سکتے ہیں اور اس کا فیصلہ کون کرتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل خود ان نو ممالک میں شامل ہیں جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان کا یہ اقدام ایک واضح دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے، جہاں چند ممالک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مہلک ترین ہتھیار رکھیں جبکہ دوسروں کو اس سے روکا جاتا ہے، چاہے اس کے لیے عسکری طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس صورتحال نے عالمی سطح پر ایک نئی اور خطرناک بحث چھیڑ دی ہے۔ کیا امریکہ اور اسرائیل کے ان اقدامات نے یہ خطرہ بڑھا دیا ہے کہ دیگر ممالک بھی اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کریں گے؟ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس طرح کے حملے عدم پھیلاؤ (non-proliferation) کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بقا کے لیے ایٹمی طاقت بننا ضروری ہے۔
الجزیرہ کے پروگرام ‘ان سائیڈ اسٹوری’ میں اسی موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، جس کی میزبانی ایڈرین فنیگن نے کی۔ پروگرام میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے سابق سربراہ برائے تصدیق و سیکیورٹی پالیسی طارق رؤف، جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کی ماہر اور انک اسٹک میڈیا کی ایڈیٹر انچیف لیسی ہیلی، اور معروف مؤرخ و نیو لیفٹ ریویو جرنل کے ایڈیٹر طارق علی نے شرکت کی۔
ماہرین نے اس بات کا جائزہ لیا کہ جوہری ہتھیاروں کی ملکیت کے حوالے سے عالمی قوانین اور معاہدوں کا اطلاق کس طرح منتخب انداز میں کیا جا رہا ہے اور اس سے عالمی امن کو کس قسم کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔