یوگنڈا پر 40 سالہ حکمرانی: 80 سالہ صدر کا اقتدار نہ چھوڑنے کا فیصلہ، اپوزیشن میں کھلبلی

یوگنڈا کے صدر یوویری میوسیوینی نے آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی تصدیق کردی ہے، جس سے ان کے تقریباً 40 سالہ دورِ اقتدار میں مزید توسیع کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

80 سالہ صدر نے ہفتے کی شب اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی جماعت نیشنل ریزسٹنس موومنٹ (این آر ایم) کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ میوسیوینی 1986 میں پانچ سالہ خانہ جنگی کے بعد اقتدار میں آئے تھے اور تب سے مسلسل حکمران ہیں۔

ان کی جماعت این آر ایم نے دو بار آئین میں ترمیم کرکے صدارتی مدت اور عمر کی حد کو ختم کیا ہے تاکہ میوسیوینی کے لیے اقتدار میں توسیع کی راہ ہموار کی جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو دبانے اور اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور ریاستی سرپرستی کا استعمال کرتے ہیں، تاہم وہ ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔

میوسیوینی کا کہنا ہے کہ وہ یوگنڈا کی معیشت کو اگلے پانچ سالوں میں 66 ارب ڈالر سے بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک پہنچانے کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ یوگنڈا کے عوام جنوری میں صدر اور اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔

دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر اور پاپ اسٹار سے سیاستدان بننے والے بوبی وائن، جن کا اصل نام رابرٹ کیاگولانی ہے، نے بھی دوبارہ انتخاب لڑنے کی تصدیق کی ہے۔ وائن نے 2021 کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر دھاندلی، بیلٹ ٹیمپرنگ اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے خوف و ہراس پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔

حالیہ مہینوں میں کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت فوجی عدالتوں کو عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دی گئی ہے، ایک ایسا عمل جسے سپریم کورٹ نے جنوری میں غیر آئینی قرار دیا تھا۔ حکومت کا اصرار ہے کہ یہ تبدیلی قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن شخصیات کا مؤقف ہے کہ یہ ناقدین کو ڈرانے اور خاموش کرانے کا ایک آلہ ہے۔

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے یوگنڈا کی فوجی عدالتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عدالتی آزادی اور انصاف کے بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں