سوات کا دل دہلا دینے والا سانحہ، 20 جانیں گئیں، دریا کنارے بنے ہوٹلوں کیخلاف بڑا کریک ڈاؤن شروع

سوات: خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث پیش آنے والے مختلف حادثات میں کم از کم 20 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، جبکہ سوات میں دریا کنارے پیش آنے والے المناک واقعے کے بعد انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بڑا آپریشن شروع کردیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے اتوار کے روز دریائے سوات کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے دریا کے کنارے قائم غیر قانونی ڈھانچوں کو مسمار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ کارروائی اس افسوسناک واقعے کے بعد کی گئی ہے جس میں دریائے سوات کے کنارے پکنک منانے والے 17 افراد پانی کے اچانک تیز بہاؤ میں بہہ گئے تھے۔

اس واقعے میں جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہوگئی ہے جب چارسدہ سے ایک اور بچے کی لاش دریا سے نکالی گئی۔ ریسکیو 1122 سوات کے مطابق، سیلابی پانی میں بہہ جانے والے بچے کی لاش دوسرے ضلع میں دریا کے نیچے کی طرف سے ملی۔

دوسری جانب، تجاوزات کے خلاف آپریشن پر ریسٹورنٹ مالکان نے فضا گٹ بائی پاس روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک بلاک کردی۔ مظاہرین نے حکام پر چھوٹے کاروباریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بااثر ہوٹل مالکان کو چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ ان کے معمولی ہوٹلوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق، خیبرپختونخوا بھر میں شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے کم از کم 20 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بارشوں اور سیلاب سے 10 افراد زخمی ہوئے جبکہ سوات میں 50 سے زائد گھر جزوی طور پر تباہ اور 6 مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ ہلاکتیں سوات، ایبٹ آباد، پشاور، چارسدہ، مالاکنڈ اور شانگلہ میں رپورٹ ہوئیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوات سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ریسکیو آپریشن کو ناکام قرار دیا اور کہا کہ بچوں کو ان کے والدین کے سامنے بہہتے دیکھنا صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ تیاریوں کی ناکامی ہے۔

اس کے برعکس، وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز پر سانحے پر سیاست کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے غفلت برتنے پر چھ افسران کو فوری طور پر معطل کردیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں