غزہ سے تعلق رکھنے والی مصنفہ تقویٰ احمد الواوی نے الجزیرہ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک تجزیے میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں امداد کی تقسیم کو ایک مہلک ’ہنگر گیم‘ میں تبدیل کرچکا ہے، جہاں بھوک سے بے حال فلسطینی روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا رہے ہیں۔
مصنفہ لکھتی ہیں کہ جب 2000 کی دہائی کے آخر میں ’دی ہنگر گیمز‘ نامی کتابیں شائع ہوئیں تو بہت کم قارئین نے سوچا ہوگا کہ ان کے افسانوی مناظر حقیقی دنیا میں بھی نظر آئیں گے، لیکن آج غزہ میں روزانہ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مارچ کے آغاز سے مکمل اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے پوری پٹی میں فاقہ کشی پھیل چکی ہے۔ زیادہ تر خاندان دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں، جبکہ کچھ خاندان کئی دنوں تک بھوکے رہتے ہیں۔
مئی کے آخر میں، امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) نے محدود امدادی ترسیل شروع کی۔ اس کے بعد سے فلسطینیوں کو خوراک کے حصول کے لیے ایک جان لیوا کھیل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ مصنفہ کے مطابق امدادی مراکز، جنہیں اسرائیلی “نتساریم کوریڈور” کہتے ہیں، کسی منظم جگہ کے بجائے افراتفری اور موت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ خاردار تاروں سے گھرا علاقہ ہے جسے غیر ملکی فوجی ٹھیکیداروں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے اور قریب ہی اسرائیلی ٹینک اور فوجی تعینات ہیں۔
امداد کی تقسیم کا کوئی واضح شیڈول نہیں ہوتا۔ جب گیٹ کھلتے ہیں تو بھوکا ہجوم اندر داخل ہوتا ہے۔ نہ قطاریں، نہ عملہ، صرف شور، دھول اور خوف کا راج ہوتا ہے۔ ڈرون گدھوں کی طرح منڈلاتے ہیں اور پھر لاؤڈ اسپیکر سے آواز آتی ہے: “چار منٹ! جو لے سکتے ہو لے لو!” ریت کے بیچ میں رکھے گئے کھانے کے ڈبے کبھی بھی کافی نہیں ہوتے۔ لوگ ایک دوسرے پر چڑھتے، دھکیلتے اور لڑتے ہیں۔ چاقو نکل آتے ہیں، لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور پھر گولیوں کی آواز گونجتی ہے، اور یہ ریتلا میدان قتل گاہ بن جاتا ہے۔
مصنفہ کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی اس وقت مارے جا چکے ہیں جب اسرائیلی فوج نے امداد کے منتظر ہجوم پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ 4,000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوست نور کے والد صبحی کی کہانی بیان کی جو 14 جون کو امداد لینے گئے اور کبھی واپس نہیں لوٹے۔ بعد میں ان کی لاش ملی۔ اسی طرح ایک اور دوست کے بہنوئی خامس کو 24 جون کو اس وقت اسرائیلی کواڈ کاپٹر کی گولی نے شہید کر دیا جب وہ امداد کے لیے گیٹ کھلنے کا منظر دیکھنے کے لیے باہر نکلے تھے۔
مصنفہ نے اس صورتحال کا موازنہ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی (UNRWA) کے منظم اور منصفانہ امدادی نظام سے کیا، جس پر اسرائیل نے پابندی لگا دی ہے۔ ان کے مطابق UNRWA کا نظام شفاف تھا اور اس میں سب سے زیادہ کمزور افراد کو ترجیح دی جاتی تھی۔ مصنفہ کا الزام ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور امداد کی تقسیم کو ’ہنگر گیمز‘ کی شکل دے کر افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ فلسطینی معاشرے میں موجود یکجہتی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہو جائے۔
آخر میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اب دنیا ہم پر یقین کرے گی؟ کیا وہ کوئی اقدام کرے گی؟ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی افسانہ نہیں، یہ حقیقی نسل کشی کا حصہ ہے۔ دنیا کا اس صورتحال سے آنکھیں چرانا اس کی اپنی انسانیت کے زوال کا ثبوت ہے۔
(اس مضمون میں بیان کردہ خیالات مصنف کے اپنے ہیں اور الجزیرہ کے ادارتی موقف کی عکاسی نہیں کرتے۔)