امداد کے نام پر موت کی تقسیم: غزہ کے امدادی مراکز فلسطینیوں کیلئے مقتل گاہ بن گئے، دل دہلا دینے والی تفصیلات

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 27 مئی سے اب تک اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے زیر انتظام امدادی مراکز پر خوراک کے انتظار میں کم از کم 583 فلسطینی شہید اور 4,186 زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ ہلاکتیں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہیں کیونکہ محصور علاقے پر قحط کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں ہفتوں سے خبردار کر رہی ہیں کہ غزہ کے 2.1 ملین باشندوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، بازار خالی ہیں، صاف پانی کی کمی ہے، اور امدادی سامان کی ترسیل بے قاعدہ اور خطرناک ہے۔

GHF کے آپریشن کے پہلے آٹھ دنوں میں ہی اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے 100 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔ الجزیرہ کے نمائندے کے مطابق، GHF اس وقت غزہ میں خوراک کا واحد ذریعہ ہے کیونکہ اسرائیل نے دیگر گروپوں کی جانب سے سامان کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

**امدادی مراکز کہاں ہیں؟**

اقوام متحدہ کے سابقہ امدادی نیٹ ورک کے برعکس، جو پٹی بھر میں تقریباً 400 مراکز چلاتا تھا، GHF نے صرف چار “میگا سائٹس” قائم کی ہیں، جن میں سے تین جنوب میں اور ایک وسطی غزہ میں ہے۔ شمال میں، جہاں حالات سب سے زیادہ سنگین ہیں، کوئی مرکز قائم نہیں کیا گیا۔ یہ مراکز بے قاعدگی سے کھلتے ہیں، کبھی کبھی صرف ایک گھنٹے کے لیے، جس سے مایوس ہجوم میں افراتفری پھیل جاتی ہے۔

**لوگ امداد کیسے حاصل کرتے ہیں؟**

ان مراکز تک رسائی جان لیوا ہے۔ فلسطینیوں کو کئی کلومیٹر تک فعال جنگی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے، بائیو میٹرک چیک پوائنٹس سے گزرنا ہوتا ہے اور پھر بھاری سامان اٹھا کر اپنے خاندانوں تک واپس پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ نظام سب سے زیادہ کمزور افراد، بشمول بزرگ، زخمی اور معذور افراد، کو امداد سے مؤثر طریقے سے محروم کر دیتا ہے۔

**امدادی پارسل میں کیا ہوتا ہے؟**

امدادی پارسل بمشکل بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ جہاں عالمی ادارہ خوراک روزانہ 2,100 کیلوریز کی سفارش کرتا ہے، وہیں اسرائیل نے امداد کو 1,600 کیلوریز تک محدود کر دیا ہے۔ GHF کے پارسل تقریباً 1,750 کیلوریز فراہم کرتے ہیں لیکن ان میں صاف پانی، ادویات، کمبل یا ایندھن شامل نہیں ہوتا۔ ایک عام GHF باکس میں 4 کلو آٹا، پاستا کے چند پیکٹ، پھلیوں کے دو ڈبے، چائے کی پتی کا ایک پیکٹ اور چند بسکٹ ہوتے ہیں۔

**کیا امداد کے منتظر افراد کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے؟**

اسرائیلی اخبار ‘ہاریٹز’ نے نامعلوم اسرائیلی فوجیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ فوجیوں کو فلسطینیوں کے ہجوم پر فائرنگ کرنے اور ایسے لوگوں کے خلاف غیر ضروری مہلک طاقت استعمال کرنے کا حکم دیا گیا تھا جن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔

ایک فوجی نے اخبار کو بتایا، “ہم نے ٹینکوں سے مشین گنیں چلائیں اور گرینیڈ پھینکے۔” ایک اور فوجی نے کہا کہ جس علاقے میں وہ تعینات ہے وہاں روزانہ “ایک سے پانچ افراد ہلاک ہوتے تھے”۔ اس فوجی نے اس جگہ کو “قتل گاہ” قرار دیا۔

**بچوں پر اثرات**

یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچوں میں غذائی قلت “خطرناک حد تک” بڑھ رہی ہے۔ صرف مئی میں، چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے کم از کم 5,119 بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کے لیے اسپتالوں میں داخل کرایا گیا، جو اپریل کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد اور فروری کے مقابلے میں 150 فیصد زیادہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق، “ان میں سے ہر ایک کیس کو روکا جا سکتا ہے۔ انہیں جس خوراک، پانی اور غذائیت کے علاج کی اشد ضرورت ہے، اسے ان تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے فیصلے ہیں جو جانیں لے رہے ہیں۔”

اپنا تبصرہ لکھیں