امریکی تاریخ کے ایک انتہائی متنازع اور شرمناک واقعے میں، 1944 میں ریاست جنوبی کیرولائنا میں صرف 14 سال کی عمر کے سیاہ فام لڑکے، جارج اسٹنی جونیئر، کو محض ایک دن کی عدالتی کارروائی کے بعد سزائے موت سنا دی گئی اور اسے الیکٹرک چیئر پر بٹھا دیا گیا۔
یہ واقعہ ‘جم کرو’ قوانین کے دور میں پیش آیا جب امریکا میں نسلی امتیاز عروج پر تھا۔ جارج اسٹنی پر دو سفید فام لڑکیوں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت صرف ایک دن جاری رہی، جس میں جیوری کے تمام اراکین سفید فام تھے۔ حیران کن طور پر، جیوری نے صرف دس منٹ کے غور و خوض کے بعد جارج کو قصوروار ٹھہرایا۔
مقدمے کی کارروائی کے دوران نہ تو کوئی ٹھوس جسمانی ثبوت پیش کیا گیا اور نہ ہی دفاع کے لیے کوئی گواہ لایا گیا۔ اس عدالتی ناانصافی کے نتیجے میں، جارج اسٹنی بیسویں صدی میں امریکا میں سزائے موت پانے والے سب سے کم عمر فرد بن گئے۔
تاہم، اس کہانی نے تقریباً سات دہائیوں بعد ایک نیا موڑ لیا جب 2014 میں ایک جج نے اس مقدمے کو دوبارہ کھولا اور جارج اسٹنی کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ 1944 کی کارروائی میں سنگین خامیاں تھیں اور اسٹنی کو اس کے بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔
ماہرین، بشمول کرمنل ڈیفنس اٹارنی میتھیو برجیس اور افریقی امریکن اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر میلانی ہومز، جارج اسٹنی کی کہانی کو امریکی نظام انصاف کی ایک ایسی واضح مثال کے طور پر دیکھتے ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ نظام کس طرح افریقی امریکیوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ ناکامیاں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔ یہ کیس امریکی انصاف کے نظام میں گہری نسلی تفریق اور اس کی تاریخی غلطیوں پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔