سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچچ نے حکومت مخالف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد مزید مظاہرین کی گرفتاری کا عزم ظاہر کیا ہے۔ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کے مطالبے پر ہونے والے ان مظاہروں میں پولیس اور شرکاء کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جس نے مہینوں سے جاری عوامی بے چینی کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔
اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں، صدر ووچچ نے دارالحکومت بلغراد میں ہفتے کو ہونے والے طلباء کے زیر اہتمام احتجاج کے منتظمین پر تشدد اور پولیس پر حملوں کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے مظاہرین پر ”دہشت گردی“ پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ”پولیس پر حملہ کرنے کے الزام میں مزید بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا… یہ ابھی خاتمہ نہیں ہے۔“
واضح رہے کہ ہفتے کی رات ریلی کے باقاعدہ اختتام کے بعد جھڑپیں شروع ہوئیں، جہاں پولیس نے مظاہرین پر مرچوں کا اسپرے، لاٹھیاں اور شیلڈز کا استعمال کیا جبکہ مظاہرین نے پتھر، بوتلیں اور دیگر اشیاء پھینکیں۔
یہ مظاہرے گزشتہ نومبر میں نووی ساد شہر کے ایک ٹرین اسٹیشن کی چھت گرنے سے 16 افراد کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے، جس کا ذمہ دار بڑے پیمانے پر کرپشن کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس سانحے کے بعد وزیر اعظم میلوس ووچیوچ نے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن حکمران جماعت بدستور اقتدار میں ہے۔
حکام کے مطابق مظاہرے میں 36,000 افراد شریک تھے، جبکہ ایک آزاد ادارے کے مطابق یہ تعداد تقریباً 140,000 تھی۔ صدر ووچچ نے اپنی پریس کانفرنس میں ”دہشت گردوں اور ریاست کو گرانے کی کوشش کرنے والوں“ پر تنقید کی اور خاص طور پر بلغراد یونیورسٹی کے ہیڈ ڈین ولادن جوکچ کا ذکر کیا جو مظاہرین میں شامل تھے۔
صدر نے کہا، ”سربیا جیت گیا، آپ تشدد سے سربیا کو تباہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جان بوجھ کر خونریزی کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ اب احتساب کا وقت آ گیا ہے۔“
دوسری جانب مظاہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ”غیر قانونی“ ہے اور کسی بھی قسم کے تشدد کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس کے مطابق اتوار کو 48 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 22 مظاہرین نے طبی امداد حاصل کی۔ وزیر داخلہ ایویتسا داچچ نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے 77 افراد میں سے 38 تاحال زیر حراست ہیں، جن میں سے بیشتر پر مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
صدر ووچچ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ 2026 کے آخر سے پہلے کوئی قومی انتخابات نہیں ہوں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اقتدار میں رہنے والے ووچچ تیزی سے آمرانہ ہوتے جا رہے ہیں، جس سے جمہوری آزادیوں کو نقصان پہنچا ہے اور کرپشن کو فروغ ملا ہے۔ اگرچہ سربیا باضابطہ طور پر یورپی یونین کی رکنیت کا خواہاں ہے، لیکن ووچچ کی حکومت نے روس اور چین کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔