واشنگٹن: امریکی سینیٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 940 صفحات پر مشتمل ‘بڑے، خوبصورت بل’ (Big, Beautiful Bill) پر بحث شروع ہو گئی ہے، جس میں ٹیکسوں میں بڑی کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ صحت اور خوراک کے پروگراموں میں بھی وسیع پیمانے پر کٹوتیاں شامل ہیں۔
اتوار کو رات بھر جاری رہنے والے اجلاس کے دوران غیر جانبدار کانگریشنل بجٹ آفس (سی بی او) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس بل سے ایک دہائی کے دوران امریکی قرضوں میں اندازاً 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ بل قانون بن گیا تو 2034 تک مزید 1 کروڑ 18 لاکھ امریکی شہری انشورنس سے محروم ہو جائیں گے۔
ریپبلکن رہنما، جو قانون سازی کی لاگت پر سی بی او کے تخمینے کو مسترد کرتے ہیں، ٹرمپ کی جانب سے دی گئی 4 جولائی (یومِ آزادی) کی ڈیڈلائن کو پورا کرنے کی جلدی میں ہیں۔ تاہم، ہفتے کی رات ہونے والی ایک ضابطے کی کارروائی میں بل کو منظور کرانے کے لیے انہیں بمشکل حمایت حاصل ہوئی۔ چند ریپبلکن سینیٹرز نے بغاوت کی اور اس قانون سازی کو ٹریک پر رکھنے کے لیے ٹرمپ کی فون کالز اور نائب صدر جے ڈی وینس کے دورے کی ضرورت پڑی۔
شمالی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر تھام ٹلس، جنہوں نے ہفتے کو بل کے خلاف ووٹ دیا تھا، نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔ یہ اعلان ٹرمپ کی اس دھمکی کے بعد سامنے آیا کہ وہ ‘نہیں’ میں ووٹ دینے پر ان کے خلاف پرائمری میں ایک حریف کی حمایت کریں گے۔ ٹلس کا کہنا تھا کہ وہ میڈیکیڈ میں بڑی کٹوتیوں کے ساتھ اس بل کو ووٹ نہیں دے سکتے۔
اس بل میں مجموعی طور پر تقریباً 4 ٹریلین ڈالر کی ٹیکس کٹوتیاں شامل ہیں، جن میں ٹرمپ کے 2017 کے ٹیکس ریٹس کو مستقل کرنا اور ٹپس پر کوئی ٹیکس نہ لگانے جیسے نئے وعدے شامل ہیں۔ سینیٹ پیکج ڈیموکریٹس کے منظور کردہ گرین انرجی ٹیکس کریڈٹس کو بھی ختم کر دے گا اور میڈیکیڈ اور فوڈ اسٹیمپس میں 1.2 ٹریلین ڈالر کی کٹوتیاں لگائے گا۔
اس کے علاوہ، بل میں سرحد اور قومی سلامتی کے لیے 350 ارب ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی جائے گی، جس میں ملک بدری کے اخراجات بھی شامل ہیں، اور اس کا کچھ حصہ تارکین وطن پر عائد نئی فیسوں سے ادا کیا جائے گا۔
ڈیموکریٹک سینیٹرز، جو اس بل کی مکمل مخالفت کر رہے ہیں، اس کی منظوری میں تاخیر کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سینیٹ میں اقلیتی رہنما چک شومر نے کہا کہ ریپبلکن اس بل کو امریکی عوام کے جاننے سے پہلے ہی جلد بازی میں منظور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آزاد سینیٹر برنی سینڈرز نے اسے ‘ہمارے ملک کی جدید تاریخ کا سب سے خطرناک قانون’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، “ہمارے پاس بھوکے بچوں کو کھلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، لیکن کسی نہ کسی طرح ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو مزید 150 ارب ڈالر ملنے والے ہیں۔”
بحث کے بعد، سینیٹ میں ترامیم پر ووٹنگ کا عمل شروع ہوگا جسے ‘ووٹ-اے-راما’ کہا جاتا ہے، جس کے بعد حتمی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوگی۔ اگر سینیٹ بل منظور کر لیتا ہے تو اسے ایوانِ نمائندگان میں واپس بھیجنا ہوگا۔
یہ قانون سازی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب فلوریڈا میں ‘ایلیگیٹر الکاٹراز’ نامی حراستی مرکز کے کھلنے کی توقع ہے اور ٹرمپ انتظامیہ روزانہ 3,000 تارکین وطن کی گرفتاریوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔