سانحہ سوات: دریا میں ڈوبتے خاندان کی چیخیں گونجتی رہیں، مدد کیوں نہ پہنچی؟ چونکا دینے والے انکشافات
سوات: دریائے سوات میں پیش آنے والے المناک حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہوگئی ہے، جس کے بعد انتظامی کوتاہیوں، دریا میں غیر قانونی کھدائی اور تاخیر سے شروع ہونے والے امدادی کاموں پر سنگین سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، جنہوں نے ممکنہ طور پر اس سانحے کو مزید بدتر بنادیا۔
یہ واقعہ جمعے کے روز اس وقت پیش آیا جب سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 17 افراد دریا کنارے پکنک مناتے ہوئے اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دل دہلا دینے والی ویڈیوز میں خاندان کو تیزی سے سکڑتے ہوئے خشکی کے ٹکڑے پر پھنسے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جو تقریباً ایک گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن کوئی فوری مدد نہ پہنچ سکی۔
اتوار کو چارسدہ سے ایک بچے سمیت اب تک 12 لاشیں نکالی جاچکی ہیں، جبکہ ایک شخص کی تلاش اب بھی جاری ہے۔
اگرچہ اس سال کا سیلاب 2010 یا 2022 کی تباہی کی سطح تک نہیں پہنچا، لیکن نقصان پھر بھی شدید ہے۔ اطلاعات کے مطابق سیلابی پانی خوازہ خیلہ، منگلور اور مالم جبہ جیسے علاقوں سے آیا، جو عام طور پر دریا کے بہاؤ میں ابتدائی اضافے کا سبب نہیں بنتے، جس کی وجہ سے دریا کے نچلے حصوں میں غیر متوقع اور خطرناک صورتحال پیدا ہوئی۔
مبصرین کے مطابق بروقت الرٹ جاری کرنے میں حکام کی ناکامی اس سانحے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اگر بروقت انتباہ جاری کرکے مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا جاتا تو ممکنہ طور پر کئی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔
غیر قانونی مائننگ نے دریا کا رخ بدل دیا
دریائے سوات کے ساتھ غیر قانونی مائننگ بھی جانچ کی زد میں ہے۔ دریا کے بیڈ سے بجری اور ریت کی بے دریغ کھدائی نے اس کے قدرتی راستے کو شدید طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ بھاری مشینری کے استعمال سے دریا کے اندر گڑھے اور ٹیلے بن گئے ہیں، جس سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور سیلاب کے دوران خطرناک ریلوں کا سبب بنی۔ مبینہ طور پر یہ سرگرمیاں کھلے عام جاری رہیں، جس سے ریگولیٹری اداروں کے نفاذ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
تاخیر سے امداد اور سامان کی کمی
امدادی کارروائیوں پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ جائے وقوعہ سے صرف 3 سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود، ریسکیو 1122 کی ٹیمیں مبینہ طور پر 19 منٹ کی تاخیر سے پہنچیں اور وہ بھی ناکافی سامان کے ساتھ، جن میں کشتیاں، رسیاں اور تربیت یافتہ غوطہ خور شامل نہیں تھے۔ سامان آپریشن کے دوران منگوایا گیا، جو بہت تاخیر سے پہنچا اور کوئی خاطر خواہ مدد فراہم نہ کرسکا۔
تجاوزات اور خلاف ورزیاں
اس کے علاوہ، دریا کے کنارے تجاوزات پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ناقدین نے سوال اٹھایا ہے کہ حفاظتی ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریا کے 200 فٹ کے اندر تعمیرات کی اجازت کیسے دی گئی۔ اگرچہ حکومت نے اس طرح کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے، لیکن ان حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جنہوں نے این او سی اور بلڈنگ پرمٹ جاری کیے۔
واقعے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے دریاؤں کے کناروں پر کان کنی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے اور غیر قانونی ڈھانچے کو ہٹانے کے لیے صوبہ بھر میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔ چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ کریک ڈاؤن تمام غیر مجاز تعمیرات، بشمول دریاؤں کے قریب بنے ہوٹلوں تک پھیلایا جائے گا، تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔
حکام پر اب ان نظامی مسائل کو حل کرنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے جنہوں نے اس مہلک واقعے کو جنم دیا اور ایسی اصلاحات نافذ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جو حفاظت اور جوابدہی کو ترجیح دیں۔